لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) لندن میں ایک جیوری نے برطانوی شخص محمد گوہر خان کو نیدرلینڈز میں مقیم پاکستانی بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش میں شریک ہونے کے الزام میں مجرم قرار دے دیا ہے۔
جیوری نے متفقہ فیصلے میں گوہر خان کو مجرم قرار دیا ہے۔ مجرم کو سزا مارچ میں سنائی جائے گی۔
برطانوی شخص محمد گوہر خان پر الزام تھا کہ اس نے نیدرلینڈز میں مقیم بلاگر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش میں بطور کرائے کے قاتل حصہ لیا اور اس مقصد کے لیے اس نے نیدرلینڈز کا سفر بھی کیا تھا۔
برطانوی شخص نے اپنے دفاع میں موقف اپنایا تھا کہ اس کا وقاص گورایہ کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور وہ صرف اس شخص سے کچھ رقم نکلوانے کی کوشش کر رہا تھا جس نے اس کے کارگو کے کامیابی سے چلتے ہوئے کاروبار کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
گوہر خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ مزمل نامی جس شخص نے اس سے رابطہ کیا تھا وہ اس کے کارگو بزنس کے لیے پاکستان میں ڈلیوری ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا تھا۔ اس مقدمے میں مسٹر مزمل کو مسٹر مڈز اور پاپا کے ناموں سے بھی پکارا گیا ہے۔
استغاثہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ مسٹر مزمل، مسٹر زیڈ کے نام کے جس دوسرے شخص کو اپنا باس کہہ کر گوہر خان سے متعارف کراتا رہا تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ مسٹر مزمل نے ہی اپنی جعلی شناخت تیار کر رکھی تھی۔
گوہرخان نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اسے نہیں معلوم کہ ایک لاکھ برطانوی پاونڈ کی رقم کہاں سے آ رہی تھی اور نہ ہی اس نے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ پاکستان میں کسی کے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔
برطانوی شخص محمد گوہر خان نے بھی مسٹر مزمل سے بات کرنے کے لیے تین مختلف نام گوہر، مش (مشتاق) اور مسٹر جی استعمال کیے تھے۔
محمد گوہر خان کا عدالت کے سامنے موقف تھا کہ وہ مزمل کو بتانا چاہتا تھا کہ اس کے پاس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے ایک سکواڈ ہے جس کے ہمراہ وہ نیدرلینڈ گیا تھا۔ اس کا کہنا ہے تھا کہ اس جھوٹ کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ مزمل سے زیادہ سے زیادہ رقم نکلوا سکے۔
برطانوی شخص محمد خان کا عدالت کے سامنے موقف تھا کہ اس کی پاکستان کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں اور وہ احمد وقاص گورایہ کو جانتا تھا نہ ہی کبھی جاننے کی کوشش کی۔
استغاثہ کا موقف تھا کہ ملزم گوہر خان ایک ‘عادی جھوٹا’ اور قرضوں میں جکڑا ہوا شخص ہے جس نے ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ حاصل کرنے کے لالچ میں کرائے کا قاتل بننے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
استغاثہ کا موقف تھا کہ گوہر خان کو یہ لالچ دیا گیا تھا کہ اگر اس نے نیدرلینڈز میں بلاگر وقاص گورائیہ کو قتل کر دیا تو اسے یورپ میں مزید ایسے کام دیے جا سکتے ہیں۔ اس مقدمے کی کارروائی کے دوران کسی موقع پر بھی مزید ایسے ’پراجیکٹس‘ کی وضاحت نہیں کی گئی۔
البتہ گوہر خان کا موقف رہا ہے کہ اس نے مزید مواقعوں کے بارے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی کیونکہ وہ پہلے کام کو مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔