نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف ‘نسل پرستانہ رویہ’ اپنانے کا الزام لگایا ہے۔ جواباً اسرائیل نے انسانی حقوق کی تنظیم پر ہی سامیت دشمنی کا الزام عائد کر دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یکم فروری منگل کے روز اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست نے جس ”ظلم اور تسلط کے نظام” کے تحت فلسطینیوں پر حکومت کی ہے وہ ”اپرتھائیڈ” یعنی نسل پرستی کی بنیاد پر تفریق برتنے کی بین الاقوامی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف، ”الگ تھلگ رکھنے، بے دخل اور شامل نہ کرنے” کا ایک ایسا نظام نافذ کرنے کا الزام لگایا ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جبر اور تسلط کا نظام نافذ کرنے کے لیے اسرائیلی حکام کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔
دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ چار برس میں مرتب کی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ کے لیے ‘ہیومن رائٹس واچ’ اور اسرائیلی حقوق کی تنظیم ‘بی ٹی سلیم’ جیسی دیگر معروف انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ مل کر کا م کیا۔ اس میں اسرائیل پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک ”نسل پرست” ریاست کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا اور اسے ”سامیت دشمنی کی آگ پر ایندھن ڈالنے” کے مترادف قرار دیا۔ جرمنی میں بھی یہودی گروہوں نے اس رپورٹ کو ”سامیت مخالف” قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل، اگنیس کالمارڈ نے کہا، ”ایمنسٹی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرتی ہے اور سامیت دشمنی کی بھی مذمت کرتی ہے۔”
ایمنسٹی کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
ایمنسٹی کی رپورٹ، سن 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد سے، اسرائیل میں فلسطینی آبادی پر ایک تحقیقاتی تاہم مختصر تاریخ پیش کرتی ہے۔ اس کے مطابق اس دوران تقریباً سات لاکھ فلسطینی، یعنی موجودہ اسرائیل کی تقریباً 80 فیصد فلسطینی آبادی، یا تو وہاں سے نکل گئی یا پھر اسے بے دخل کر دیا گیا۔ اس میں سے بیشتر فلسطینی پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
فی الوقت اسرائیل کی جو کل 94 لاکھ کی آبادی ہے اس میں 20 فیصد فلسطینی ہیں۔ لیکن اگر مغربی کنارے اور غزہ کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہودی اور عرب آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔
سن 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لی تھی اور آباد کاروں کو بے دخل کر دیا تھا۔ عسکریت پسند گروپ حماس، جسے امریکا اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، سن 2007 سے ہی غزہ پر حکمرانی کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کا بکھرا ہوا تمام علاقہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جو اسرائیلی ریاست کو بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن تک کی سرزمین کو کنٹرول کرنے کے قابل بناتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کچھ فلسطینیوں نے اسرائیل میں کاروبار، قانون، طب اور تفریحی شعبے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، تاہم اس کے باوجود ان کے حالات اور ملازمت کے امکانات کے ساتھ ساتھ جسمانی یا سماجی نقل و حرکت کے امکانات بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں اسرائیل کے اندر عربوں کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک، غزہ کی پٹی کی تباہ کن ناکہ بندی، اور مغربی کنارے کے ان حصوں کے عملاً الحاق کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، جہاں اسرائیل تیزی سے یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع کر رہا ہے۔
جرمنی اور فرانس سمیت بین الاقوامی برادری کے بہت سے افرادنے ان بستیوں اور ان کی توسیع کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید بھی کی ہے۔
اس رپورٹ میں فلسطینیوں کی اراضی اور املاک کی تخصیص، ماورائے عدالت قتل، لوگوں کی زبردستی نقل مکانی، اور شہریت کے حقوق سے انکار جیسے دیگر امور کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔