شام: ادلب پناہ گزیں کیمپ میں سردی سے دو بچے ہلاک

دمشق (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/اے پی) شام میں شدید برف باری اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گرجانے کے سبب بے گھر افراد کے کیمپوں میں دو بچے ہلاک ہو گئے۔ پناہ گزینوں کو انتہائی سردی کا سامنا ہے اور خیموں کو بچانے کے لیے بھی سخت جد و جہد کرنی پڑ رہی ہے۔

شام کے صوبے ادلب کے جورت الجوز علاقے میں واقع صدقہ کیمپ کے مکین اس ہفتے برفانی طوفان سے بری طرح متاثر ہوئے۔برف باری کی وجہ سے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے پہنچ گیا اور شدید سردی کے سبب دو کم سن بچے ہلاک ہو گئے۔

اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”صوبہ ادلب کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں ٹھنڈ کے سبب دو بچیوں کی موت ہو گئی۔ان میں سے ایک سات دن کی جبکہ دوسری دو ماہ کی تھی۔ ”

کیمپ کے افسوس ناک حالات

صدقہ کیمپ کے ایک رہائشی ابو یامین نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ”ہم برفانی طوفان سے متاثر ہوئے جس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کی وجہ سے خیمے ہمارے سروں پر گر گئے، بس لوگ معجزانہ طور پر کسی طرح بچ گئے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ کیمپ میں ہزاروں کی تعداد میں، ”شامی پناہ گزین رہ رہے ہیں اور کیمپوں کی صورت حال بہت افسوس ناک ہے۔”

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ منگل کو جن بچوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی ہے وہ ادلب شہر کے شمال میں الزیارا اور الشیخ بحر علاقوں کے کیمپوں میں مقیم تھے۔ برطانیہ میں قائم اس نگران گروپ نے مزید کہا کہ 23 جنوری کو حلب کے پڑوسی صوبے جرابلوس کے ایک کیمپ میں بھی ایک ماہ کا بچہ سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔

اسی دوران 18 جنوری کو قلعہ مقداد کے علاقے میں برفباری کے باعث خیمے کی چھت گرنے سے بھی ایک اور بچہ ہلاک ہو گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق، 18، 19 اور 25 جنوری کو خطے میں آنے والے طوفانوں کے نتیجے میں ادلب اور حلب میں بے گھر ہونے والے افراد کے 287 کیمپ برف باری، سیلاب اور تیز ہواؤں سے متاثر ہوئے ہیں۔ برف باری سے کم از کم 935 خیمے تباہ اور دیگر ساڑھے نو ہزار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

اقوام متحدہ کی اپیل

شام میں تقریباً ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی کے دوران اپنے گھر بار چھوڑ کر تقریباً 28 لاکھ افراد نے اپوزیشن کے مضبوط گڑھ میں پناہ لے رکھی ہے۔ یہاں بہت سے لوگ گرم کپڑوں اور حرارتی ایندھن کے بغیر بوسیدہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ شام میں شدید اقتصادی بدحالی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے، جہاں گزشتہ ایک برس کے دوران ہی غذائی اشیا کی قیمتیں دوگنی ہو گئی ہیں۔ ادارے کے مطابق موسم سرما میں امداد فراہم کرنے کے لیے فنڈز میں کمی ہوئی ہے جبکہ ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک اہلکار مارک کٹس نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ” شمال مغربی شام میں بے گھر لوگ اب بھی برفانی طوفانوں اور شدید موسم کے حالات نمٹ رہے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران اس کی وجہ سے بہت سے کیمپ تباہ ہو گئے ہیں۔ انسانی امداد کی ٹیمیں کوشاں ہیں، تاہم موثر امداد کے لیے فوری طور پر مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے۔”

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس برس کے آغاز سے اب تک کیمپوں میں 68 بار آگ بھی لگ چکی ہے، جس میں دو افراد ہلاک اور 24 زخمی ہوئے ہیں۔ آگ لگنے کے زیادہ تر واقعات چولہے جلانے کی وجہ سے پیش آئے۔

شام میں بچوں کی فلاح و بہود کے ادارے ‘سیو دی چلڈرن’ کے ڈائریکٹر، سونیا خوش نے کہا کہ ”یہ تو سمجھ سے باہر ہے کہ کسی بچے کو اپنی زندگی کے لیے خوف زدہ موسم سرما کا سامنا کرنا پڑے۔”

انہوں نے مزید کہا، ” ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شام میں بحران شروع ہونے کے تقریباً 11 برس بعد، دنیا شمال مغربی شام کے بچوں کو بھول چکی ہے۔ یہ قابل گریز اور المناک اموات اس بات کی خوفناک مثال ہیں کہ کس طرح بچوں کو فوری طور پر مزید انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ انہیں شام کے تنازع کے دیرپا اور پرامن حل کی بھی ضرورت ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں