واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/روئٹرز) امریکا نے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ ایران کا اصرار اور شرط تھی کہ معاہدے میں واپسی کے لیے پہلے امریکا کو اپنی تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔
امریکا نے چار فروری جمعے کے روز ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام پر عائد پابندیوں کو ختم کر دیا۔ پیر سات فروری کو ویانا میں ہونے والی بات چیت سے قبل، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے متعدد پابندیوں کے خاتمے کے لیے دستاویزات پر دستخط کیے۔
#UPDATE The resumption of the sanctions waivers, ended by the Trump administration in 2020, "would be essential to ensuring Iran's swift compliance" if a new nuclear deal can be reached in Vienna, a State Department official said Fridayhttps://t.co/0XmxxMiPrG
— AFP News Agency (@AFP) February 4, 2022
سن 2015ء کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہ معاہدہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) یا مشترکہ جامع منصوبہ عمل کے نام سے معروف ہے۔
اس معاہدے کی رو سے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
بلنکن نے پابندیوں کے خاتمے پر دستخط کر دیے
امریکی محکمہ خارجہ نے کانگریس کے لیے اپنے ایک نوٹ میں کہا ہے، ’’ان سرگرمیوں کے حوالے سے یہ چھوٹ اس بات چیت کو آسان بنانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، جو جے پی سی او اے پر مکمل نفاذ کے لیے باہمی واپسی کے معاہدے پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہو گی اور ایران کو اس معاہدے میں واپس لانے کے لیے بنیاد بھی فراہم کرے گی۔‘‘
ان پابندیوں کے خاتمے سے بیرونی ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے بوشہر جوہری پاور اسٹیشن، اراک کے ہیوی واٹر پلانٹ، اور تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں امریکی پابندیوں کی زد میں آئے بغیر کام کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
سن 2018ء میں ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل جانے اور دوبارہ امریکی پابندیاں نافذ کیے جانے کے بعد، ایران نے بھی بتدریج اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی۔ اس نے اپنے بعض جوہری پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کی شرح میں اضافہ کر دیا تھا اور یہ اس جانب ایک قدم تھا جس کی ضرورت ایٹم بم بنانے کے لیے ہوتی ہے۔
معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت میں اہم پیش رفت
امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی جوہری معاہدے میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کوشش شروع کی تھی۔
گرچہ معاہدے کی بحالی کے لیے گزشتہ برس اپریل سے ویانا میں امریکا اور ایران نے بالواسطہ طور پر مذاکرات کے کئی دور کیے، تاہم تہران نے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں حصہ لینے کا اشارہ اس برس جنوری میں کیا تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس بھی ان مذاکرات میں شامل ہیں۔
بات چیت کے آغاز سے ہی ایران کا مسلسل اصرار اس بات پر تھا کہ پہلے امریکا کو اپنی تمام تر پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے امریکا نے یکطرفہ طور پر اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا اس لیے معاہدے میں واپسی کی شرط یہ ہے کہ پہلے وہ پابندی ختم کرے۔
گزتہ ماہ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کی واپسی کے لیے مذاکرات میں وقت سب سے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”حل تلاش کرنے کی کھڑکی بند ہو رہی ہے۔ مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں ہیں۔ ہمیں فوری، بہت ہی جلد پیش رفت کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر، ہم کسی مشترکہ معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘‘