کراچی (ڈیلی اردو) کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نے صحافی ناظم جوکھیو قتل کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے حتمی چالان سے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان سے اتفاق نہیں کرتی، عدالت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے 13 دسمبر 2021 کے فیصلے سے اتفاق کرتی ہے جس میں عدالت نے کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلانے کی آبزرویشن دی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں چل سکتا ہے لہٰذا چالان تفتیشی افسر کو واپس کیا جاتا ہے، کیس کا چالان انسداد دہشت گردی عدالتوں کے منتظم جج کے سامنے پیش کیا جائے۔
عدالت نے مدعی مقدمہ افضل جوکھیو کی جانب سے کیس انسداد دہشتگردی عدالت میں چلانے کی درخواست نمٹادی۔
عدالت نے ملزمان کو بھی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات کی کاپی سپرٹنڈنٹ ملیر جیل کو بھی بھیجی جائے۔
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ناظم جوکھیو کے قتل کا مقصد عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا تھا، ناظم جوکھیو قتل کیس دہشت گردی کی تعریف میں آتا ہے لہٰذا اس عدالت کو اب کیس کی مزید سماعت کا اختیار نہیں۔
واقعہ کا پس منظر
گزشتہ برس نومبر میں سندھ کے رہائشی اور مقامی صحافی ناظم جوکھیو نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ ملیر میمن گوٹھ میں کچھ غیر ملکیوں کو شکار سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔
ناظم جوکھیو کے لواحقین نے اس مبینہ قتل کے الزام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام، رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم سمیت 22 ملزمان کو نامزد کیا تھا، جن میں سے بیشتر افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ چند ملزمان ضمانت پر ہیں۔
اس سے قبل ناظم جوکھیو قتل کیس کے مدعی نے درخواست کی تھی کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی جائیں۔ مدعی کی اس درخواست پر یہ دفعات مقدمے میں شامل کر لی گئی تھیں۔
مدعی افضل جوکھیو کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھیں پولیس کی موجودہ تفتیشی ٹیم پر اعتماد نہیں۔
وفاقی حکومت نے گزشتہ سال نومبر میں ناظم جوکھیو قتل کیس میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کے شکاری
ناظم جوکھیو قتل کیس کے تفتیشی افسر نے چالان میں بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال اپنے ساتھیوں کے ساتھ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں شکار کے لیے آتے ہیں۔ انھیں حکومت پاکستان کی اجازت حاصل ہوتی ہے اور وہ سالانہ فیس بھی ادا کرتے ہیں۔
ان غیر ملکیوں نے جنگ شاہی ضلع ٹھٹھہ میں ایک کیمپ بھی تعمیر کروا رکھا ہے جہاں وہ شکار کے دنوں میں قیام کرتے ہیں۔ چالان کے مطابق مقامی افراد کو اس کیمپ کی دیکھ بھال کے لیے ملازمت پر رکھا گیا ہے جنھیں معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
پولیس کے مطابق یو اے ای سے آنے والے افراد کے جام عبدالکریم اور جام اویس عرف گہرام کے ساتھ بھی مراسم ہیں کیوں کہ شکار کے لیے قائم کیمپ ان کے زیر اثر علاقے میں ہے۔
تفتیشی پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر کے آخر میں متحدہ عرب امارات سے کچھ افراد شکار کے لیے مذکورہ کیمپ میں آئے ہوئے تھے۔
ناظم جوکھیو کی غیر ملکی شہری سے تلخ کلامی
گزشتہ سال دو اکتوبر تقریباً صبح 8 بجے ایک عربی شیخ اپنے غیرملکی ملازم اور مقامی افراد غلام حیدر جوکھیو، میر حسن بروہی، احمد خان شورو (گیم انسپکٹر محکمہ وائلڈ لائف سندھ) اور ایک نامعلوم ڈرائیور کے ساتھ الگ الگ گاڑیوں میں سوار ہو کر شکار کے لیے روانہ ہوئے۔
مذکورہ تاریخ کو متوفی ناظم الدین جوکھیو عبدالعزیز جوکھیو کے ہمراہ گاؤں آچار سالار کے قریب جنگل میں آئے ہوئے تھے اور ان کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔
اسی دوران مذکورہ عربی شیخ کی گاڑی کراچی اور ضلع ٹھٹہ کی درمیانی سرحد پر واقع کے ڈی اے لائن پر کھڑی تھی۔ ناظم جوکھیو اور عبدالعزیز جوکھیو موٹر سائیکل پر گاؤں کی طرف واپس لوٹ رہے تھے کہ انھوں نے مذکورہ گاڑی دیکھی۔
اس وقت ناظم جوکھیو نے اپنی موٹر سائیکل گاڑی سے دور کھڑی کی اور کچھ دیر انتظار کیا۔ جب تقریباً آدھے گھنٹہ تک گاڑی وہیں کھڑی رہی تو مقتول ناظم نے اپنی بندوق جھاڑیوں میں رکھی اور عبدالعزیز کو وہیں کھڑا کرنے رہنے کی تاکید کر کے خود موٹر سائیکل پر مذکورہ گاڑی کے پاس گئے۔
پولیس چالان کے مطابق ناظم جوکھیو نے گاڑی میں موجود غیر ملکی شہری سے شکار کے پرمٹ کے بارے میں سوال کیا تو دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
اس دوران ناظم جوکھیو نے اپنے موبائل فون سے مذکورہ گاڑی اور غیر ملک شہری کی ویڈیو بناتے ہوئے اسے فیس بک پر براہ راست نشر کر دیا جس کے بعد مذکورہ عربی نے ناظم جوکھیو سے اس کا موبائل فون چھین لیا۔
جام عبدالکریم اور جام اویس کی دھمکیاں
پولیس کے مطابق اسی دوران غیر ملکی شہری کے مقامی ساتھی اپنی گاڑی میں وہاں پہنچ گئے۔ چالان کے مطابق عربی شیخ نے موبائل فون غلام حیدر جوکھیو اور میر حسن بروہی کے حوالے کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ وہ اسے ناظم جوکھیو کے حوالے کردیں۔
ناظم جوکھیو کو فون واپس کر دیا گیا اور دونوں گاڑیاں وہاں سے روانہ ہوگئیں۔
چالان میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کی اطلاع جب ملزم جام عبدالکریم اور ان کے بھائی جام اویس عرف گہرام کو ہوئی تو انھوں نے مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو سے احمد جمال نامی شخص کے موبائل نمبر سے رابطہ کیا اور مذکورہ ویڈیو ڈیلیٹ کرنے، شیخ سے معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
چالان کے مطابق ملزم نیاز سالار، جو رکن قومی اسمبلی اور کیس میں نامزد ملزم جام عبدالکریم کا پی آر او ہے، نے بھی ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے رابطہ کیا لیکن متوفی ناظم جوکھیو نے ایک اور ویڈیو فیس بک پر شیئر کی جس میں ملزمان کی جانب سے دباو ڈالے جانے کا تذکرہ کیا۔
پولیس چالان کے مطابق ملزم جام عبدالکریم نے اپنے پی آر او نیاز سالار کو ہدایت دی کہ وہ مدعی افضل جوکھیو اور متوفی ناظم جوکھیو کو ان کے بنگلے جام ہاؤس جام گوٹھ نزد میمن گوٹھ لے کر آئے۔
نیاز سالار نے محمد سومار سالار اور اپنے برادرِ نسبتی دودو سالار کو ہمراہ لیا اور اپنی (کلٹس) کار میں رات تقریباً گیارہ بجے گاؤں آچار سالار پہنچے جہاں سے مدعی افضل جوکھیو اور متوفی ناظم جوکھیو رضامندی سے ان کے ساتھ روانہ ہوئے۔
اسی دوران متوفی ناظم جوکھیو گاڑی سے اتر کر گھر گئے اور اپنے ایک دوست مظہر الدین جونیجو ایڈوکیٹ کو واٹس ایپ وائس میسج کے ذریعے آگاہ کیا کہ وہ جام عبدالکریم کے لوگوں کے ساتھ جا رہے ہیں۔
چالان: ناظم جوکھیو کی موت تشدد سے ہوئی
پولیس چالان کے مطابق جام ہاؤس پہنچنے پر جام عبدالکریم نے متوفی ناظم جوکھیو کو تھپڑ مارے اور موبائل فون سے واقعہ کی ویڈیوز ڈیلیٹ کر دیں۔ اس کے بعد ناظم جوکھیو کو میر علی اور حیدر علی کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے ناظم جوکھیو کو گارڈ روم میں قید کر دیا۔
دوسری جانب ناظم جوکھیو کے بڑے بھائی افضل جوکھیو کو ان کے گھر واپس بھیج دیا گیا۔
پولیس کے مطابق جام عبدالکریم بھی جام ہاؤس سے روانہ ہوئے تو ان کے چھوٹے بھائی اور رکن صوبائی اسمبلی سندھ ملزم جام اویس عرف گہرام گارڈ روم میں گھسے جہاں انھوں نے ناظم جوکھیو پر خود اور گارڈز کے ذریعے ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے تشدد کیا اور پھر انھیں زخمی حالت میں وہیں چھوڑ دیا گیا۔
پولیس کے مطابق اس تشدد کی نتیجے میں ناظم جوکھیو کی موت واقع ہو گئی۔
اگلی صبح جب جام عبدالکریم کو ناظم جوکھیو کی موت کا علم ہوا تو سب سے پہلے نیاز سالار اور بعد میں سلیم سالار کو بتایا گیا۔ سلیم سالار کے ذریعے ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو اور ان کے ماموں در محمد کو جام ہاؤس گاڑی پر بلوایا گیا جہاں انہیں بھی ناظم کی موت کی اطلاع دی گئی۔
یہ سنتے ہی مدعی افضل جوکھیو اور درمحمد جام ہاؤس سے روتے ہوئے باہر نکلے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر بھی یہ بات پھیلائی اور سلیم سالار کو کہا کہ انھیں پریس کلب ملیر چھوڑ آئیں۔
اس دوران جام عبدالکریم نے اپنے ملازم ملزم معراج کے ذریعے پولیس کو وقوعہ کی اطلاع کروائی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ایک جھگڑے کے دوران متوفی ناظم جوکھیو کی موت ہو گئی ہے۔
تھانہ میمن گوٹھ کی پولیس نے جائے وقوعہ سے ناظم جوکھیو کی نعش قبضے میں لی اور چھیپا ایمبولنس سروس کے ذریعے جناح ہسپتال پہنچائی گئی جہاں پوسٹ مارٹم کروایا گیا۔
واضح رہے کہ ایف آئی آر سے قبل میمن گوٹھ پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ میمن گوٹھ میں دو گروہوں میں تصادم ہوا ہے جس کے نتیجے میں ناظم جوکھیو نامی شخص ڈنڈے لگنے سے ہلاک ہو گیا ہے۔
اس دوران متوفی کے رشتہ داروں نے احتجاجاً نیشنل ہائی وے بلاک کر دی تھی اور بعد ازاں مقدمہ درج کروایا۔
اغوا کا جرم ثابت نہیں ہوا
پولیس کے مطابق اب تک کی تفتیش میں ناظم الدین جوکھیو کو اس کے گھر گاؤں آچار سالار سے اغوا کرنے اور اعانت جرم کی کوئی شہادت نہیں پائی گئی لہذا دفعہ 365,109 پی پی سی کو غیر متعلقہ ہونے کے سبب خارج کیا جاتا ہے۔
پولیس چالان کے مطابق متوفی ناظم الدین جوکھیو کو عربی شیخ کے ساتھ تلخ کلامی کرنے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا جس میں ملزمان جام عبدالکریم، جام اویس عرف گہرام، میر علی جوکھیو، حیدر علی خاصخیلی اور نیاز سالار ملوث پائے گئے ہیں۔