کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک عدالت نے پیغمبر اسلام کی توہین کے الزام میں ایک ہندو پروفیسر کو عمرقید اور جرمانے کی سزا سُنائی ہے تاہم ملزم کے رشتے داروں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ میں ماضی قریب میں یہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے جس میں کسی ہندو شہری کو توہین مذہب کے الزام میں سزا سُنائی گئی ہے۔
عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے مطابق 14 ستمبر 2019 کو مدعی مقدمہ عبدالعزیز خان نے گھوٹکی تھانے میں مقدمہ درج کروایا تھا کہ اُن کا بیٹا ایک پبلک سکول میں پڑھتا ہے اور اُس نے انھیں (اپنے والد) کو بتایا کہ سکول کے مالک نوتن لال مبینہ طور پر کلاس میں آئے ’پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی‘ اور چلے گئے۔
مدعی مقدمہ کے مطابق اُن کے بیٹے نے یہ بات دو گواہوں محمد نوید اور وقاص احمد کی موجودگی میں بیان کی۔
ایڈیشنل سیشن جج ممتاز سولنگی نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ استغاثہ نے جو گواہ پیش کیے ہیں وہ ’آزاد اور قابل بھروسہ‘ ہیں اور ان کے بیانات ’بدنیتی پر مبنی نہیں‘ کیونکہ ان میں سے کسی کی ملزم سے ذاتی دشمنی یا عناد نہیں ہے، لہٰذا ان کی گواہیوں پر یقین نہ کرنے کا جواز نہیں ہے۔
عدالت کے مطابق استغاثہ ملزم نوتن پر الزام ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے چنانچہ اُنھیں عمر قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ملزم کو مزید چار ماہ قید میں گزارنے ہوں گے۔ فیصلے کے مطابق سزا پر عملدرآمد گرفتاری کے روز سے ہو گا۔
نوتن کے کزن مہیش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ مبینہ طور پر اس مقدمے میں ’انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور دباؤ میں یہ فیصلہ سُنایا گیا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے کا کوئی بھی چشم دید گواہ نہیں بلکہ صرف سُنی سُنائی باتوں پر بیانات دیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ مدعی نے جن افراد کو گواہ کے طور پر شامل کیا ہے وہ بھی اس کے پڑوسی ہیں۔
مہیش کمار کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں ہندو کمیونٹی خوف اور دباؤ کی شکار ہے، خاص کر ان کے خاندان کو مقدمے کی پیروی میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ مقدمے کی تفتیش کسی سینیئر پولیس افسر کے بجائے جونیئر اہلکار سے کروائی گئی جو قانون کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا وہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں جائیں گے۔
اس روز کیا ہوا تھا؟
پولیس کے مطابق تنازع پروفیسر نوتن لال کی گفتگو سے شروع ہوا جب وہ ایک کلاس میں اُردو کا مضمون پڑھا رہے تھے۔ کلاس ختم ہونے کے بعد اُن کے ایک شاگرد اسلامیات کے ٹیچر کے پاس گئے اور نوتن لال پر پیغمبر کی شان میں نازیبا زبان استعمال کرنے کا الزام لگایا۔
اساتذہ نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی اور نوتن لال نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نیت کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی۔
لیکن مذکورہ طالبعلم نے اس واقعے کا ذکر اپنے والد سے کیا اور فیس بک پر بھی پوسٹ کر دیا جس کے بعد لوگوں میں اشتعال پھیل گیا۔
واقعے کے بعد مقامی بازار میں ہڑتال بھی کی گئی جس کے دوران ایک گروہ نے نوتن کے سکول کی عمارت پر حملہ کر دیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔
اس کے علاوہ ایک اور گروہ نے نوتن کی رہائشگاہ پر بھی حملہ کیا اور سائیں سادھ رام مندر پر بھی حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
حالات کشیدہ ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے رینجرز کو طلب کر لیا تھا۔