نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے صوبہ گجرات کے شہر احمد آباد کی ایک خصوصی عدالت نے سال 2008 میں شہر میں ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کے کیس میں49 افراد کو مجرم قرار دیا ہے جب کہ 28 افراد کو عدم ثبوتوں کی وجہ سے بری کردیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق بری کیے جانے والوں میں سے چھ کے خلاف ایک یا ایک سے زائد مقدمات ہیں اور وہ دیگر کیسز میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ احمدآباد میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں میں 56 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ 26 جولائی 2008 کو 70 منٹ کے وفقے میں یکے بعد دیگرے 21 بم دھماکے ہوئے تھے۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے ایک مبینہ دہشت گرد گروپ ‘انڈین مجاہدین’ کے کارکن ان دھماکوں کے میں ملوث تھے۔ پولیس کے مطابق انڈین مجاہدین نے 2002 میں گجرات میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے تھے۔
ان دھماکوں کے چند روز بعد پولیس نے سورت کے مختلف علاقوں سے بم برآمد کیے تھے۔ جس کے بعد احمد آباد اور سورت میں 15 ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔
عدالت نے جن افراد کو مجرم قرار دیا ہےان میں کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے جنرل سیکریٹری صفدر ناگوری بھی شامل ہیں۔27 فروری 2017 کو اندور کی ایک عدالت نے غیرقانونی ہتھیار، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد رکھنے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
احمدآباد بم دھماکوں کے کیس کا فیصلہ 13 سال بعد سنایا گیا ہے۔ عدالت نے گزشتہ برس ستمبر میں مذکورہ کیس کی سماعت مکمل کی تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد استغاثہ کے وکیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے تمام 49 افراد کو غیرقانونی سرگرمیاں روکنے سے متعلق قانون یو اے پی اے کی دفعہ 16 اور دیگر دفعات اور تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت مجرم قرار دیا ہے۔
ان کے بقول استغاثہ کی جانب سے دھماکوں کو دہشت گرد کارروائی قرار دیا گیا تھا۔
عدالت نے اس معاملے میں 35 کیسز کو ایک ساتھ ملانے کے بعد دسمبر 2009 میں 78 ملزمان کے خلاف سماعت شروع کی تھی۔ ملزمان پر قتل کے ساتھ ساتھ اقدامِ قتل اور مجرمانہ سازش کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ بعد ازاں ایک ملزم سرکاری گواہ بن گیا تھا جس پر 77 افراد کے خلاف سماعت ہوئی۔
رپورٹس کے مطابق ابتدا میں سیکیورٹی کے پیش نظر کیس کی سماعت سابرمتی جیل میں کی گئی جس کے بعد بیشتر سماعتیں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کی گئیں۔
سماعت کے دوران 26 گواہوں کو اسٹار گواہ مانا گیا تھا اور ان کی شناخت کو سیکیورٹی کے پیشِ نظر خفیہ رکھا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران 547 فرد جرم لگائی گئیں جب کہ 1163 گواہوں سے جرح کی گئی۔تمام ملزمان نے الگ الگ جیلوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شرکت کی۔
رپورٹس کے مطابق ملزمان میں سے چار نے اپنا جرم قبول کرلیا تھا اور انہیں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا۔ البتہ بعض وجوہات کے باعث ان کے خلاف کارروائی جاری رہی۔ یہ تمام مجرمان ملک کی چھ جیلوں میں بند ہیں۔
ایک سینئر سرکاری وکیل نے بتایا کہ اس کیس میں بعد میں مزید چار افراد گرفتار کیے گئے تھے لیکن ان کے خلاف تاحال سماعت شروع نہیں ہوئی ہے۔