تہران (ڈیلی اردو) ایران نے ایک نئے میزائل کی نمائش کی ہے جس کو ’’خیبر شکن‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ ایک ہزار چار سو پچاس کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔
ایرانی افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری اور آئی آر جی سی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ملک میں بنائے گئے میزائل کی نمائش کی۔
ایران، جس کا مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا میزائل پروگرام ہے، کا کہنا ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائلوں کی رینج 2,000 کلومیٹر (1,200 میل) تک ہے اور وہ خطے میں اپنے دشمن اسرائیل اور امریکی اڈوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔
سرکاری ٹی وی نے زمین سے سطح پر مار کرنے والے نئے “خیبر شکن” (خیبر بسٹر) میزائل کی نمائش کی۔
ایران نے اس میزائل کا نام جزیرہ نما عرب کے حجاز کے علاقے میں خیبر نامی ایک قدیم یہودی نخلستان کے حوالے سے رکھا ہے، جسے 7ویں ہجری میں مسلمانوں نے زیر کیا تھا۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ، “یہ طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل مقامی طور پر پاسداران انقلاب (IRGC) نے تیار کیا ہے، اس میں نشانے کے حوالے سے اعلیٰ درجے کی درستگی شامل کی گئی ہے اور یہ ٹھوس ایندھن سے چلایا جاتا ہے۔
خیبر شکن میزائل شیلڈز میں گھسنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب، جو ایران کا علاقائی حریف ہے، نے بارہا بڑی طاقتوں سے تہران کے میزائلوں کے بارے میں خلیجی عرب کے خدشات دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل، جسے اسلامی جمہوریہ تسلیم نہیں کرتا، نے طویل عرصے سے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر ویانا میں ہونے والے مذاکرات تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام رہے تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی۔
تاہم، ایران کا کہنا ہے کہ اس کے جوہری عزائم پرامن ہیں۔
2018 میں، اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی تھی، جو ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
تہران کو ایک وسیع معاہدے پر بات چیت پر مجبور کرنے کے لیے دوبارہ پابندیاں عائد کی تھیں جس سے اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں پراکسیوں کی حمایت پر بھی توجہ دی جائے گی۔
ایران نے ایک سال بعد بتدریج معاہدے کی جوہری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو دوبارہ بڑھایا ہے، اسے اعلیٰ فصیل پاکیزگی تک بہتر بنایا اور پیداوار کو تیز کرنے کے لیے جدید سینٹری فیوجز کی تنصیب کی۔
معاہدے کی بحالی کے لیے تہران اور واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ بات چیت جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی جگہ لینے کے بعد شروع ہوئی تھی، لیکن اپریل سے آٹھ دوروں کے باوجود ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔
تہران اور واشنگٹن نے ایک دوسرے پر پیش رفت نہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔
ایران کے اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار علی شمخانی نے بدھ کے روز ٹویٹ میں لکھا کہ، “امریکی حکومت کی طرف سے آنے والی آوازیں ظاہر کرتی ہیں کہ ویانا مذاکرات کو آگے بڑھانے کی سمت میں سیاسی فیصلے کرنے کے لیے اس ملک میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔”