جنیوا (ڈیلی اردو/رائٹرز) اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے افغانستان میں چار سرگرم خواتین کارکنوں اور ان کے رشتہ داروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے جنھیں طالبان کے اقتدر سنبھالنے کے بعد گزشتہ ماہ خواتین کے حقوق کے لیے مظاہروں کے بعد حراست میں لیا گیا یا اغوا کرلیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق او ایچ سی ایچ آر نے کہا ہے کہ ان چاروں خواتین کے بارے میں کوئی خبر نہیں انہیں کہاں رکھا گیا۔ جنھوں نے مبینہ طور پر سولہ جنوری کو خواتین کے حقوق پر ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا تھا اور حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے کیسز کی معلومات فراہم کریں۔
او ایچ سی ایچ آر کی ترجمان لز تھروسل نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ “ہم ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں ان لاپتہ خواتین اور ان کے خاندان کے افراد کی سلامتی کے حوالے سے تشویش ہے”۔
او ایچ سی ایچ آر نے کہا ہے کہ پروانہ ابراہیم خیل اور تمنا پریانی کو ان کے رشتہ داروں کے ساتھ انیس جنوری کو اغوا کیا گیا تھا، جبکہ مرسل عیار اور زہرہ محمدی کو گزشتہ ہفتے پکڑا گیا تھا اور اس بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔
تھروسل نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ ان خواتین کو کس نے پکڑا ہے۔ طالبان عہدیداروں نے اس واقعہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
طالبان انتظامیہ کے ترجمان بلال کریمی نے ایک سوال پر کہا ہے کہ “ہم اس واقعہ کی تحقیقات کررہے ہیں اور معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں”۔
اگست میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد عسکریت پسند گروپ کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کے خلاف آواز بلند کرنے والے مخالفین اور سرگرم کارکن خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔ سول سوسائٹی اور حقوق نسواں کے بہت سے کارکن ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
طالبان کا کہنا ہےکہ انھوں نے اپنے مخالفین کو عام معافی دے دی ہے اور وہ اسلامی قانون اور رسم و رواج کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں، لیکن انسانی حقوق کی وکالت کرنے والے بہت سے افراد اور غیر ملکی سفارتکار اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔