اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاون نے اپنے تینوں منصوبوں کی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 4 سو 79 ارب روپے سے زائد کی پیش کش کردی۔
عدالت عظمی میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاون عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس دوران بحریہ ٹان کے وکیل علی ظفر پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ نجی مارکیٹنگ کمپنی پرزم نے جو نقشہ جمع کروایا ہے وہ بحریہ کے نقشے سے مختلف ہے جبکہ جو رقبہ بحریہ ٹان نے سرنڈر کیا تھا وہ بھی پرزم کے نقشے میں شامل ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ آپ نے ایک اور درخواست دی ہے جس میں کہا گیا کہ اگر الاٹمنٹ اس علاقے میں ہوئی تو متبادل جگہ دیں۔وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ جس رقبے کی ملکیت سے بحریہ نے انکار کیا ہے، وہاں ہوئی الائنمنٹ کے لیے متبادل جگہ دیں گے۔
اس دوران وکیل علی ظفر نے صرف بحریہ ٹاون کراچی کی 16 ہزار 896 ایکڑز زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے 9 سال میں 4سو 35 ارب روپے ادائیگی کی پیش کش کی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اس کو ‘راونڈ فگر’ کریں، 9 تو ویسے بھی بدقسمت (ان لکی)نمبر ہے آپ 4سو 35 ارب روپے کی پیش کش پر دوبارہ غور کریں۔اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ بحریہ ٹاون کے کراچی، مری اور راولپنڈی کے منصوبوں کی زمین کے لیے کل 4سو 79 ارب روپے کی پیشکش کی ہے۔
خیال رہے کہ بحریہ ٹاون کی جانب سے عدالت میں پیش کی گئی دستاویز میں کراچی کے منصوبے کی 16 ہزار 8سو 96 ایکڑ زمین کی مد میں 4 سو 35 ارب، تخت پڑی راولپنڈی کی 5 ہزار 4سو 72 کینال کی زمین کے لیے 21 ارب 88 کروڑ 80 لاکھ روپے جبکہ سلختر اور مانگا مری کے منصوبے کی 4 ہزار 5سو 42 کینال زمین کے عوض 22 ارب 71 کروڑ روپے کی پیش کش شامل ہے۔
سماعت کے دوران وکیل نے کہا کہ جسٹس فیصل عرب نے کہا تھا کہ اگر ملک ریاض جیسے 3، 4 لوگ سامنے آجائیں تو ملک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مطلب ہے کہ اس طرح کے لوگ اور بھی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب اپنی تحقیقات مکمل کرے اور بحریہ ٹاون اپنی پیش کش پر دوبارہ غور کرے۔ جس کے بعد عدالت عظمی نے مذکورہ کیس کی سماعت 13 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔