لندن (ڈیلی اردو) حال ہی میں ایک ایسے مریض کو ایچ آئی وی سے نجات ملی ہے جس میں ہڈیوں کا گودا (بون میرو) منتقل کیا گیا ہے تاہم اس نے کینسر کے علاج کے لیے گودا منتقل کروایا تھا۔
اب سے دس برس قبل ایسے ہی ایک مریض کو عین اسی طریقے سے ایچ آئی وی سے شفا ملی تھی اور اب یہ دوسرا کیس ہے جس میں بہ یک وقت کینسر اور ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص کو بون میرو منتقلی سے ایچ آئی وی سے نجات ملی ہے۔ یہ علاج ایسے لوگوں کے لیے کارآمد نہیں جنہیں صرف ایچ آئی وی ہو۔ پہلے اس سے برلن کے ایک مریض کو شفا ملی تھی اور اب لندن کے ایک شخص کا علاج کیا گیا ہے۔
برطانوی مریض کا علاج کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر رویندرا گپتا نے کیا ہے۔ برطانوی مریض میں بون میرو منتقل کرنے کے ایک سال بعد اسے ایچ آئی وی کی اینٹی وائرل ادویہ کھانے سے روکا گیا۔ اب تقریباً 18 ماہ گزرچکے ہیں اور اس مریض میں ایچ آئی وی کے کوئی آثار نہیں رہے۔ لیکن ڈاکٹروں کے مطابق لندن کے مریض کو مزید تین چار سال تک مسلسل دیکھا جائے گا اور اس کے بعد ہی اس کا حتمی اعلان کیا جائے گا۔
ڈاکٹروں کے مطابق ایچ آئی وائرس امنیاتی نظام کے خلیات کو متاثر کرتا ہے جو ہڈیوں کے گودے میں بنتے ہیں۔ یہاں سے یہ خون اور جنسی مائعات میں شامل ہوتا ہے۔ اس کی کچھ مقدار تلی کے اندر جاکر چھپ جاتی ہے اور جیسے ہی مریض ایچ آئی وی دوا لینا بند کرتا ہے تو تلی سے یہ وائرس دوبارہ جسم میں شامل ہوجاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
2007 میں برلن کے مریض میں پہلے ایک طرح کے کینسر کا انکشاف ہوا تھا جس میں امنیاتی نظام متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاج میں ڈاکٹروں نے پہلے اس کے تمام امنیاتی خلیات ریڈیو تھراپی اور ادویہ سے ختم کئے۔ اس کے بعد ایک مخصوص شخص کا گودا اس مریض کو لگایا گیا جس میں سی سی آر فائیو جین تبدیلی تھی اور اس تبدیلی سے لوگ فطری طور پر ایچ آئی وی سے بچے رہتے ہیں لیکن دنیا کے بہت کم لوگوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے۔
لندن کے مریض کا بھی عین اسی طرح علاج کیا گیا انہوں نے CCR5 جینیاتی تبدیلی والے ایک مریض کا بون میرو لے کے اسے لگایا۔ مسلسل علاج کے بعد وہ مریض اب ایچ آئی وی سے پاک ہوچکا ہے۔