اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد کی ایک عدالت نے آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک اور تجزیہ کار محسن بیگ کی رہائش گاہ پر بدھ کی صبح ایف آئی اے کی جانب سے مارے گئے چھاپے کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔
ایف آئی اے کی اس کارروائی کے دوران گرفتاری میں مزاحمت کرنے پر اسلام آباد پولیس نے محسن بیگ کے خلاف اقدامِ قتل کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بدھ کو ہی انھیں تین دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔
ایف آئی اے کے چھاپے کے خلاف محسن بیگ کے وکیل کی جانب سے مقامی عدالت میں دائر درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کہا ہے کہ محسن بیگ کے گھر بغیر کسی سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا تھا۔
جج نے اپنے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ ایف آئی اے اور ایس ایچ او کی ایف آئی آر سے ثابت ہوتا ہے کہ چھاپہ غیر قانونی تھا اور محسن بیگ کے خلاف لاہور ایف آئی اے میں مقدمہ نو بجے درج ہوا اور ساڑھے نو بجے ایف آئی اے نے چھاپہ بھی مار دیا۔
عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ چھاپہ مار ٹیم میں جو لوگ شامل تھے وہ چھاپہ مارنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے وفاقی وزیر مراد سعید کی درخواست پر محسن بیگ کے خلاف کارروائی کی تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق اس شکایت پر ابتدائی تفتیش کے بعد محسن بیگ کے خلاف سائبرکرائم ونگ نے ایف آئی آر درج کی تھی اور صبح ساڑھے نو بجے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکار ان کے گھر ان کی گرفتاری کی غرض سے پہنچے تھے۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق بدھ کی صبح ایف آئی اے کی ایک ٹیم محسن بیگ کو گرفتار کرنے کی غرض سے اُن کے گھر گئی مگر اس دوران مزاحمت کی گئی اور ملزم (محسن بیگ) نے فائرنگ کر دی جس سے ایف آئی اے کا ایک اہلکار زخمی ہو گیا۔
اس کے بعد محسن بیگ کے خلاف بدھ کی صبح قتل عمد کی کوشش، آتشیں اسلحے سے حملہ کرنے، سرکاری اہلکار کو یرغمال بنانے اور کار سرکار میں مداخلت سمیت انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت اس وقت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے محسن بیگ کو تین دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج کا ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا حکم
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے فیصلے میں کہا ہے کہ تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او نے ‘جعلی کارکردگی دکھانے کے لیے’ ان غیر قانونی افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے الگ مقدمہ درج کر دیا۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ سوا دو بجے تک ایس ایچ او نے ریکارڈ اور غیر قانونی حراست میں رکھے گئے محسن بیگ کو پیش بھی نہیں کیا۔
عدالت نے کہا ہے کہ ریکارڈ سے ایس ایچ او کا غیر قانونی اختیار ظاہر ہوتا ہے۔ عدالت نے حکم نامے کی کاپی آئی جی اسلام آباد کو ببھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہ محسن بیگ کا بیان پولیس ریکارڈ کرے اور قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
اس سے قبل انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر محسن بیگ نے بھی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس الزام کو دوہرایا اور کہا کہ اگرچہ وہ پولیس کی تحویل میں تھے لیکن ایف آئی اے کے اہلکاروں نے ان پر تشدد کیا اور یہ کہ ان کی رہائش گاہ میں داخل ہونے والے ایف آئی اے کے اہلکاروں نے وردی نہیں پہنی ہوئی تھی۔
عدالت میں معاملے کی سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ دینے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے موکل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی درخواست کی تاہم سرکاری وکیل نے اس استدعا کی مخالفت کی اور کہا کہ ابھی معاملے کی تفتیش ہونی ہے۔
ایف آئی اے کی ٹیم محسن بیگ کو گرفتار کرنے کیوں گئی؟
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ محسن بیگ کے خلاف وفاقی وزیر مراد سعید نے ایک درخواست جمع کرواتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ایف آئی اے کے مطابق اس شکایت پر ابتدائی تفتیش کے بعد ملزم محسن بیگ کے خلاف سائبرکرائم ونگ نے ایف آئی آر درج کی تھی اور صبح ساڑھے نو بجے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے اہلکار محسن بیگ کے گھر ان کی گرفتاری کی غرض سے پہنچے تھے۔
ایف آئی اے کی ایک پریس ریلیز کے مطابق جب سائبر کرائم کی ریڈنگ ٹیم نے محسن بیگ کے گھر چھاپہ مارا تو انھوں نے اپنے بیٹے اور ملازمین کے ہمراہ ٹیم پر ’سیدھی فائرنگ کی‘ اور ’دو افسران کو یرغمال بنا کر زدوکوب کیا۔‘
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ’گولیاں ختم ہونے پر ملزم محسن بیگ کو گرفتار کر لیا گیا‘۔ ادارے کا موقف ہے کہ انھوں نے بیٹے اور ملزمان کے ہمراہ ’سرکاری ملازمین پر فائرنگ کر کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔‘
مراد سعید کی کارکردگی پر محسن بیگ کا نجی ٹی وی چینل پر تبصرہ
واضح رہے کہ چند روز قبل محسن بیگ ایک نجی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام میں شامل تھے جس میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 10 وفاقی وزرا میں ایوراڈز کی تقسیم کے بارے میں گفتگو کی گئی تھی۔
اینکر غریدہ فاروقی کے اس پروگرام میں محسن بیگ نے وفاقی وزیر مراد سعید کی وزارت کو کارکردگی میں اول نمبر ملنے پر متنازع گفتگو کی تھی جس کی بنیاد پر پروگرام کے اس حصے کو ’تضحیک آمیز/ توہین آمیز‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اُس چینل کو شوکاز (اظہارِ وجوہ کا )نوٹس جاری کیا تھا۔
ایف آئی اے کو دی گئی اپنی درخواست میں مراد سعید نے کہا ہے کہ محسن بیگ نے اُن پر ایک نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران غیر اخلاقی الزامات لگائے جس سے اُن کی ساکھ متاثر ہوئی اور عوام میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی۔
مراد سعید نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو محسن بیگ کے خلاف کارروائی کرنے کی استدعا کی تھی۔
بدھ کی شام عدالت میں پیشی کے موقع پر محسن بیگ کا کہنا تھا کہ انھوں نے مراد سعید کے خلاف کوئی بات نہیں کی اور صرف عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کتاب میں کوئی غلط چیز شائع ہوئی ہے تو پھر مصنفہ کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ نجی ٹی وی پر یہ پروگرام نشر ہونے کے بعد حکومتی عہدے داران نے محسن بیگ پر کڑی تنقید کی تھی۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کابینہ نے وزارت قانون کو تجویز دی ہے کہ وہ ایسے طاقتور قوانین لائیں جو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی تضحیک آمیز مواد پر مبنی مہم کے خلاف استعمال ہو سکیں۔
‘محسن بیگ کل تک عمران خان کے محسنوں میں سے تھے‘
پاکستان کی بعض اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس گرفتاری اور مقدمے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے صحافی محسن بیگ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس گرفتاری سے ‘عمران خان کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری ظاہر ہوئی ہے۔۔۔ اہل خانہ کے سامنے صحافی محسن بیگ کو گھسیٹ کر ایسے گرفتار کیا گیا کہ جیسے وہ دہشت گرد ہوں۔’
قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے اپنے پیغام میں محسن بیگ کی گرفتاری کو قابل مذمت، افسوس ناک اور شرمناک قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’24 فروری کو فیٹف اجلاس سے قبل میڈیا کے خلاف تازہ دھاوا پاکستان کے لیے عالمی سطح پر مزید رسوائی کے مترادف ہے اور مہنگائی، معاشی تباہی اور دیگر سنگین مسائل سے نمٹنے کی بجائے، سوال کرنے والوں سے نمٹنا بدترین حماقت و فسطائیت ہے‘۔
تاہم حکمراں جماعت کے سینیٹر اعجاز چوہدری کہتے ہیں کہ قانون ہاتھ میں لینا اور بدمعاشی پر اُتر آنا، چینل پر بیٹھ کر بداخلاقی کی انتہا کر دینا، کسی گئے گزرے معاشرے میں بھی روا نہیں۔ محسن بیگ نے ساری حدیں پار کردیں۔ قانون تو حرکت میں آئے گا۔’
صحافیوں کی جانب سے بھی محسن بیگ کی گرفتاری کی مذمت کی جا رہی ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ‘محسن بیگ صاحب کی گرفتاری میڈیا پر ایک نئے حملے کی تیاری کا عندیہ دے رہی ہے۔’ جبکہ صحافی فخر درانی کا کہنا ہے کہ ‘یہی محسن بیگ کل تک عمران خان کے محسنوں میں سے تھے۔ اور آج تنقید کرنے پر خان نے اسے گرفتار کر لیا۔’
سینیئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا محسن بیگ کی گرفتاری وزیراعظم عمران خان کی طاقت کی نہیں کمزوری کی نشانی ہے۔
محسن بیگ کون ہیں اور ان کا وزیر اعظم عمران خان سے کتنا پرانا تعلق ہے؟
محسن بیگ خبر رساں ادارے آن لائن نیوز نیٹ ورک کے بانی اور ایڈیٹر ان چیف ہیں۔ وہ ماضی میں سابق آمر پرویز مشرف کے بھی قریبی ساتھی رہے ہیں جس کا اعتراف انھوں نے صحافی سلیم صافی کو دسمبر 2021 میں انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
اسی انٹرویو میں محسن بیگ نے دعویٰ کیا کہ 2013 میں عمران خان نے ان سے رابطہ قائم کیا اور ان سے سیاسی مدد کی درخواست کی۔
محسن بیگ کے مطابق ان کے کہنے پر دو درجن سے زیادہ افراد نے بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔
انھوں نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ انھوں نے عمران خان کے لیے چندہ اکٹھا کیا جس کی کل مالیت ایک ارب روپے سے زیادہ کی ہے۔
محسن بیگ نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی انٹرویو میں دعوی کیا کہ عمران خان سے اسیٹبلشمنٹ کے روابط قائم کرنے میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔
دوسری طرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے محسن بیگ کی غریدہ فاروقی کے پروگرام میں گفتگو کے بعد 12 فروری کو پریس کانفرنس میں محسن بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ وہ (محسن بیگ) وزیر اعظم کے پاس ایک روسی کمپنی کی ڈیل لے کر نہیں آئے تھے جس سے انھیں کمیشن ملنا تھا۔
شہباز گل نے اس پریس کانفرنس میں محسن بیگ پر الزام لگاتے ہوئے مزید کہا کہ جب وزیر اعظم نے انھیں انکار کر دیا تو اس کے بعد سے وہ ‘دشمن’ بن گئے اور اگر وزیر اعظم اتنے ہی بُرے ہیں تو ماضی میں وہ پی ایم ہاؤس کس مقصد کے لیے بار بار آتے تھے۔