گوجرانوالہ (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر خانیوال میں توہینِ مذہب کے الزام پر ایک اور شخص کی ہلاکت پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو قانون کی گرفت میں لانے کا اعلان کیا ہے۔
لیکن بعض حلقے ایسے کیسز میں ملوث ملزمان کو کڑی سزا نہ ملنے اور تفتیشی نظام میں نقائص کے باعث مقدمات کی طوالت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بے دردی کے ساتھ مارے جانے والے سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کیس کی ہے جس میں دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پولیس تاحال چالان پیش نہیں کر سکی۔
وسطی پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں تین دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعے کی ایف آئی آر تو 800 سے 900 افراد کے خلاف درج کی گئی تھی تاہم مجموعی طور پر 88 ملزمان زیرحراست ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لے کر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانے کا اعلان کیا تھا جب کہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ واقعہ خبروں میں رہا تھا۔
پریانتھا کمارا کیس میں پولیس اب تک چالان پیش کیوں نہیں کر سکی؟ اس واقعے کی تفتیش کن پہلوؤں کے تحت کی گئی اور کیا ملزمان کو سزا مل سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا ذیل میں جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پریانتھا کمارا کیس اور عدالتی کارروائی
اس کیس کی حالیہ سماعت پیر کو گوجرانوالہ میں انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جج نتاشا نسیم سپرا کی عدالت میں ہوئی جس میں خاتون جج نے تفتیشی ٹیم کے رکن انسپکٹر طارق محمود سے مقدمہ کے چالان بارے استفسار کیا۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ وہ جلد چالان عدالت میں پیش کر دیں گے ، تاہم تفتیشی افسر نے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی۔
پولیس نے سخت حفاظتی پہرے میں زیرحراست تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کیا ، عدالت کے باہر اور ضلع کچہری کے مختلف مقامات پر پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی ، عدالت کے باہر ملزمان کے اہل خانہ بھی آئے ہوئے تھے جن کی تعداد اڑھائی تین سو کے لگ بھگ تھی جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ، تاہم پولیس نے انہیں عدالت سے دور دھکیل دیا۔
تھانہ اگوکی سیالکوٹ کے ایس ایچ او انسپکٹر طارق محمود نے عدالت کو بتایا کہ 81 ملزمان کے جسمانی ریمانڈ مختلف تاریخوں پر حاصل کیے گئے تھے ، ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے زیرِحرست ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ یعنی جیل بھجوا دیا جائے۔
عدالت نے تمام ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم جاری کر دیا۔
سات ملزمان پہلے ہی جیل میں موجود ہیں جو پہلے ہی اعترافِ جرم کر چکے ہیں۔ ان سات ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی 14 روز کی توسیع کر دی گئی ہے یوں اب مجموعی طور پر 88 ملزمان جیل میں ہوں گے اور کوئی ملزم پولیس کی تحویل میں نہیں رہا۔ عدالت نے مقدمہ کی سماعت 28 فروری کے لیے ملتوی کر دی۔
ہائی پروفائل کیس میں بھی چالان پیش نہ ہونا تفتیشی اداروں کی نااہلی؟
سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل کیس میں اگرچہ پنجاب حکومت نے ملزمان کی گرفتاری سے لے کر چالان کی تیاری تک خصوصی اقدامات اٹھائے ، تاہم مقررہ مدت میں چالان عدالت میں پیش نہ کرنے سے ایک بار پھر سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سینئر قانون دان منظور قادر بھنڈر نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پولیس اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کی نااہلی ہے کہ ایک کیس پوری دنیا کے سامنے آیا ہو اور اس کیس کےلیے پنجاب حکومت خصوصی اقدامات اٹھائے لیکن ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود چالان ہی عدالت پیش نہیں ہو سکا۔
منظور قادر بھنڈر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سب کے علم میں ہے کہ پریانتھا کمارا قتل کیس میں ملزمان کی گرفتاری اور چالان کی تیاری کے لیے پولیس اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کے پاس فنڈز کی کمی نہیں ، کیا یہ دونوں ادارے بتا سکتے ہیں کہ اب کیا قباحت ہے اور کیس کیوں پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ رہا ؟ اُن کے بقول یہ دونوں اداروں کے افسران کےلیے ایک ٹیسٹ کیس تھا جس میں وہ فی الوقت ناکام نظر آتے ہیں۔
چالان کب تک عدالت میں پیش ہو جانا چاہیے؟
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت تفتیشی افسر مقدمے کی تفتیش 30 دنوں کے اندر مکمل کر کے مکمل رپورٹ یا چالان عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہے ، اگر وہ 30 روز سے تجاوز کرے تو اسے تاخیر کی وجوہات بارے عدالت کو آگاہ کرنا پڑتا ہے۔
اگر کسی مقدمے کے چالان کی تیاری میں اس سے زیادہ تاخیر ہو رہی ہو تو عدالت اس کا سختی سے نوٹس بھی لیتی ہے اور اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے چالان طلب بھی کرلیا جاتا ہے۔
چالان پیش کرنے میں تاخیر پر تفتیشی افسر کا مؤقف
پریانتھا کمارا قتل کیس کی تحقیقات کے لیے بننے والی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے رُکن انسپکٹر طارق محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی ہائی پروفائل کیس ہے۔ اس لیے اس کے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چالان پیش کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول پولیس اور تفتیشی ٹیم یقینی بنانا چاہتی ہے کہ چالان میں کوئی قانونی سقم نہ رہے جس سے بعد میں ملزمان فائدہ اُٹھا لیں، لہذٰا قانونی ماہرین کی مشاورت کے ساتھ مضبوط چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ ملزمان کو سخت سزائیں دلوائی جا سکیں۔
انسپکٹر طارق کا کہنا تھا کہ پولیس نے 69 موبائل فونز قبضے میں لیے ہیں جن کا فارنزک کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کا بھی فارنزک کروایا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ چالان میں 14 گواہان سرکاری ہوں گے جب کہ پرائیویٹ گواہان کی حتمی تعداد چند روز میں واضح ہو جائے گی۔ وقوعہ کے چشم دید گواہان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے پریانتھا کمارا کو بچانے کی کوشش کی ، یہ چشم دید پرائیویٹ گواہان مثل مقدمہ کا حصہ بنائے گئے ہیں۔
انسپکٹر طارق کہتے ہیں کہ چالان کو ہر لحاظ سے مکمل بنایا جا رہا ہے ، حتیٰ کہ جس دکان سے پیٹرول خریدا گیا اور اس پیٹرول سے پریانتھا کمارا کو آگ لگائی گئی ، اس دکان سے وہ گیلن بھی تحویل میں لے کر اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ یہ پنجاب پولیس کی تاریخ کا پہلا کیس ہو گا جس میں الیکٹرانک شہادتیں یا گواہیاں زیادہ تعداد میں پیش ہوں گی جو کہ ہر لحاظ سے تصدیق شدہ ہوں گی اور انہیں عدالت میں کیس کی حتمی سماعت کے دوران مسترد نہیں کیا جاسکے گا۔
پنجاب فارنزک سائنس لیب اور ایف آئی اے کا کردار
تفتیشی ٹیم کے مطابق پریانتھا کمارا قتل کیس میں چونکہ ملزمان کی تعداد زیادہ تھی اس لیے تمام ملزمان کو گرفتار کرنا اور سب کے کردار کو الگ الگ واضح کرنا مشکل کام تھا، کسی نے پتھر مارا ، کسی نے آگ لگائی ، کسی نے للکارا ، کوئی گھسیٹتا رہا تو کوئی وہاں یہ سب کچھ دیکھتا رہا ۔ ہر شخص کا کردار الگ الگ رہا جسے عدالت میں ثابت کرنا بہرحال ایک مشکل کام ہے۔
تفتیشی ٹیم کے لیے یہ بھی ایک کڑا امتحان تھا کہ ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت کی جائے ، ایسے میں پنجاب فارنزک لیب اور ایف آئی اے کی ڈیجیٹل لیب ہی وہ ذریعہ تھے جن سے ملزمان کی جائےواردات پر موجودگی ثابت کی جاسکتی تھی۔
کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے بعد سب سے پہلے اس کا ڈی این اے اور فنگرز پرنٹس حاصل کیے گئے۔
ملزمان کے موبائل فون برآمد کیے گئے جن کا ڈیٹا اور قتل کے وقت کی لوکیشن کا فارنزک کروایا گیا اور جیو فینسنگ کروائی گئی تاکہ علم ہو کہ جب یہ قتل کیا گیا ملزمان کہاں تھے؟
پنجاب فارنزک لیب کے پاس وائس سیمپلنگ کے آلات موجود نہیں ، اس لیے اس اہم کام کے لیے ایف آئی اے کی خدمات حاصل کی گئیں اور تمام ملزمان کی وائس سیمپلنگ ایف آئی اے کی ڈیجیٹل لیب سے کروائی گئی۔
فیکٹری کے اندر اور باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے جو ڈیٹا حاصل کیا گیا اس کا فارنزک کروانا بھی ضروری تھا، کیونکہ اگر ڈیٹا میں ایک فی صد بھی ردوبدل ہوا تو قانون کے مطابق وہ سارا ڈیٹا عدالتی کارروائی کے دوران مسترد ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ملزمان کے موبائل فونز کا ڈیٹا جسے فارنزک کروایا گیا اس کی قانونی حیثیت بھی اسی وقت مسلمہ قرار پاتی ہے جب وہ ٹمپر شدہ نہ ہو۔
پولیس نے 98 ایسے مشتبہ شہریوں کو کچھ روز حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا تھا جنھیں واقعے کے فوری بعد حراست میں لیا گیا تھا البتہ ان 98 افرد کے ڈی این اے کروائے گئے تھے اور ان کی انگلیوں کے نشانات لینے سمیت تمام قانونی مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔
چالان میں سات مرکزی ملزمان کے کردار کا تعین
سیالکوٹ پولیس اگرچہ چالان کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے سامنے نہیں لا رہی ہے ، تاہم پولیس حکام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سات مرکزی ملزمان کے کردار کا حتمی تعین کر لیا گیا ہے۔
سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل میں گرفتار 88 میں سے سات ملزمان اقرارِ جرم کرچکے ہیں جنھیں جیل کی خصوصی بیرک میں الگ سے رکھا گیا ہے۔
دو ملزمان محمد عمران اور محمد حمیر نے پریانتھا کمارا پر قینچیوں سے وار کیے اور دوران تفتیش دو قینچیاں بھی برآمد کر لی گئی ہیں۔
ملزم تیمور احمد نے اینٹ کا بلاک پریانتھا کمارا کو دے مارا تھا ، اینٹ کا وہ خون آلود بلاک بھی مالِ مقدمہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔
ملزم علی اصغر نے اپنے لائٹر سے مقتول کی نعش کو آگ لگائی تھی۔ یہ لائٹر بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔
ملزم شہر یار عرف شیری اور ملزم بلال احمد عرف بھلا نے ہجوم کو اندر بلانے کے لیے مرکزی گیٹ کو توڑا تھا جب کہ عبدالصبور بٹ نے پریانتھا کمارا کو قتل کرنے کے لیے لوگوں کو اُکسایا تھا۔
پولیس حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان تمام ساتوں مرکز ی ملزمان نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اپنے بیان میں بھی اعترافِ جرم کر لیا ہے۔
مقدمے میں گرفتار دیگر 81 ملزمان کے کردار کا بھی الگ الگ تعین کرلیا گیا ہے، تاہم ان 81 ملزمان نے اقرارِ جرم نہیں کیا۔
زیرِحراست 88 ملزمان میں سے آٹھ ملزمان نابالغ یعنی ان کی عمریں 18 سال سے کم ہیں ، اس لیے ان کے خلاف کیس جوینائل کورٹ میں چلائے جانے کا امکان ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں بھی زیرِ التوا مقدمات طول پکڑتے جا رہے ہیں حالاں کہ یہ عدالتیں قائم کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ سنگین جرائم کے مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جائے گا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پریانتھا کمارا کیس جس کی وجہ سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر سبکی ہوئی وہ بھی ابھی تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکا جس سے نہ صرف پولیس کی کارکردگی بلکہ عدالتی نظام میں موجود خامیوں کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔