روس کا یوکرین پر حملہ: ایئر بیس کے کنٹرول کا حصول، کیف کے مضافات میں گھمسان کی لڑائی جاری

ماسکو + کیف (ڈیلی اردو/وی او اے/نیوز ایجنسیاں) ایک آن لائن بیان میں یوکرینی مسلح افواج کے سربراہ، ولیزی زلوزنی نے کہا ہے کہ ”گوستومیل ایئرفیلڈ کے کنٹرول کی لڑائی جاری ہے”۔

اس سے کچھ ہی دیر قبل، اے ایف پی کے نمائندوں نے شہر کے شمالی اطراف سے ہیلی کاپٹر نیچلی پرواز کرتے دیکھے تھے۔ گوستومیل ایئرفیلڈ اس علاقے میں ہے جہاں انتونوف ایئرپورٹ واقع ہے، جو کیف کا شمالی کنارہ ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں علاقائی دارالحکومت کے قریب ہی روسی فوج اتاری گئی تھی۔ آج روسی حملے کا پہلا دن ہے۔

قریبی علاقے میں رہنے والے ایک 30 سالہ شہری، الیگزینڈر کوٹوننکو نے بتایا ہے کہ حملہ تب شروع ہوا جب دو لڑاکا جیٹ طیاروں نے یوکرین کی بَری فوج کے زمینی دستوں پر میزائل فائر کیے۔

الیگزینڈر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ”پھر یکایک گولیاں چلنا شروع ہوئی جو تین گھنٹوں تک جاری رہیں۔ پھر مزید تین جیٹ طیاروں نے بمباری کی جس کے بعد شوٹنگ کا نیا سلسلہ شروع ہوا”۔

علاقے سے دھویں کے بادل اٹھنے لگے۔ پھر ہیلی کاپٹر پر سوار فوجیوں نے گولیاں برسائیں، جن مناظر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا۔ ایک فوٹیج میں سی این این نے ایئرپورٹ پر روسی فوج کو دکھایا ہے اور نامہ نگار نے بتایا کہ انھوں نے ان سے بات کی ہے۔

اس سے قبل، یوکرین کے سرحدی محافظ دستے نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹینکوں سے مسلح روس کی بری فوج نے جنوب میں بلاروس یوکرین سرحد پار کرکے کیف کے انتظامی خطے میں قدم رکھا ہے، جو تیزی سے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی یوکرین کے پڑوسی ممالک سے پناہ گزینوں کیلئے سرحدیں کھولنے کی اپیل

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین(یو این ایچ سی آر) نے یوکرین کے خلاف روس کی فوجی کارروائی کے ’تباہ کُن اثرات‘ سے خبردار کیا ہے۔

یو این ایچ سی آر نے اپنے بیان میں یوکرین کے پڑوسی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کے لیے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلپو گرانڈی نے کہا ہے کہ جانی نقصان اور تحفظ کے لیے لوگوں کے گھر چھوڑنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں تاہم انہوں نے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر نے یوکرین اور اس کے پڑوسی ممالک میں اپنے آپریشنز اور استعداد کار میں اضافہ کردیا ہے تاہم اس کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔

روس کے مقابلے میں یوکرین کے پاس کتنی فوجی قوت ہے؟

یوکرین کی افرادی و عسکری قوت روس کے مقابلے میں بہت کم ہے البتہ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج روس کی جارحیت کے خلاف مزاحمت اور جانی و مالی نقصان روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز ‘ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج 2014 کے مقابلے میں اس وقت زیادہ تربیت یافتہ اور مقابلے کے لیے تیار ہے اور موجودہ حالات میں یوکرین کی فوج ملکی دفاع کے لیے زیادہ پرعزم بھی نظر آتی ہے۔

روس نے 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر کسی بھی مزاحمت کے بغیر قبضہ کر لیا تھا۔

اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

افرادی قوت اور اسلحہ بارود کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یوکرین عسکری قوت میں روس سے بہت پیچھے نظر آتا ہے۔

روس کو نہ صرف روایتی جنگی سازوسامان میں یوکرین پر برتری حاصل ہے بلکہ وہ اپنی ایٹمی قوت کے اعتبار سے بھی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

لندن کے انسٹی ٹیوٹ فور اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کی جاری کردہ رپورٹ ’ملٹری بیلنس 22‘ کے مطابق روس کی بری فوج کے اہلکاروں کی تعداد دو لاکھ 80 ہزار ہے جب کہ مجموعی طور پر روس کی مسلح افواج کی تعداد نو لاکھ ہے۔

یوکرین پر روس کا حملہ؛نیٹو نے سربراہی اجلاس طلب کرلیا

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مغربی ممالک کے اتحاد نیٹو نے اپنا سربراہی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

برسلز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینز اسٹالٹن برگ نے کہا ہے روس کا حملہ سوچا سمجھا اور سفاکانہ ہے۔ روس طاقت کے بل پر تاریخ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

انہوں ںے اعلان کیا کہ نیٹو نے جمعے کو اتحاد میں شامل ممالک کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

لتھونیا میں ہنگامی حالات کا نفاذ

روس اتحادی بیلاروس کے ہمسایہ ملک اور نیٹو کے رکن لیتھونیا نے ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق لتھونیا کے صدر گتانا نوسیدا نے جمعرات کو ہنگامی حالات کے نفاذ کے حکم نامے پر دستخط کیے ہیں۔

ہنگامی حالات کے نفاذ کے بعد سیکورٹی اہل کاروں کو سرحدی علاقوں میں گاڑیوں، آمد و رفت کرنے والے لوگوں اور سامان کی تلاشی کے اضافی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔

ہتھیاروں سے سرحدیں بدلنے کا کوئی اقدام قابل قبول نہیں، ترکی

ترکی نے یوکرین پر روس کے حملے کو ’غیر منصفانہ اور غیرقانونی‘ قرار دیتے ہوئے فوری کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ترک وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے روس کا حملہ قابلِ قبول نہیں ہے اور ترکی انہیں مسترد کرتا ہے۔

بیان میں روس کی کارروائی کو منسک معاہدے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

ترکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روس کا حملہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ ترکی ہتھیاروں کے ذریعے سرحدیں تبدیل کرنے کے ہر اقدام کی مخالفت کرے گیا۔

یوکرین کا روس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک ٹوئٹ میں روس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہر اس شخص کو مسلح کرے گی جو اپنے ملک کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔

یوکرین پر روسی حملے کے پاکستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جمعرات کو دن کا آغاز روس کے یوکرین پر حملے کی خبر سے ہوا جس کے بعد نہ صرف عالمی کاروباری منڈیوں میں اُتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے بلکہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

روس نے یوکرین پر حملہ ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان یہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کسی بھی تنازع کے فوجی حل کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تنازع میں فریق بنے گا۔ تاہم بعض مبصرین کے مطابق اس جنگ کے سیاسی اثرات سے زیادہ پاکستان پر اس کے معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے علاوہ روس اور یوکرین سے مختلف اشیا اور اجناس درآمد کرتے ہیں۔

معاشی ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر یوکرین جنگ طول پکڑتی ہے تو پہلے سے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والی پاکستانی قوم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا لامحالہ اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔

اقوامِ متحدہ کا روس کے صدر سے مطالبہ

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے روس کے صدر پوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ اپنی افواج کو واپس بلائیں اور اس تنازع پر فوری طور پر روکیں۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ اس تصادم کو فوری طور پر رک جانا چاہیے۔

روس کا حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، نیٹو

مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز اسٹولٹنبرگ نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں روس نے ہزاروں زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلسل انتباہ اور سفارتی کوششوں کے باوجود روس نے ایک خودمختار اور آزاد ملک کے خلاف جارحیت کے راستے کا انتخاب کیا۔

نیٹو چیف نے مزید کہا کہ روس نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ خطے کی سیکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

روس کا حملہ اشتعال انگیز اور غیر منصفانہ ہے، صدر بائیڈن

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے روس کے اقدام کو یوکرین پر اشتعال انگیز اور غیر منصفانہ حملہ قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی برادری روس کا احتساب کرے گی۔

صدر بائیڈن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ان کی بات ہوئی ہے جس کے دوران انہوں نے روس کی فوج کے حملے کی مذمت کی ہے۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ جی سیون ممالک کے رہنماؤں بات چیت کے بعد وہ جمعرات کو قوم سے خطاب کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’یوکرین کے پر امن شہر حملے کی زد میں ہیں‘

یوکرین کے وزیرِ خارجہ دیمیترو کولیبا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ روس نے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کر دیا ہے اور یوکرین کے پرامن شہر حملے کی زد میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جارحیت کی جنگ ہے اور یوکرین اپنا دفاع کرے گا اور یہ جنگ جیتے گا۔

یوکرین کے وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادی پوٹن کو روکیں اور وقت آگیا ہے کہ دنیا عملی اقدام کرے۔

یوکرین کے وزیرِ خارجہ دیمیترو کولیبا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ روس نے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کر دیا ہے اور یوکرین کے پرامن شہر حملے کی زد میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جارحیت کی جنگ ہے اور یوکرین اپنا دفاع کرے گا اور یہ جنگ جیتے گا۔

یوکرین کے وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادی پوٹن کو روکیں اور وقت آگیا ہے کہ دنیا عملی اقدام کرے۔

روس کا یوکرین پر حملہ

روس کی افواج نے جمعرات کو یوکرین پر حملہ کرتے ہوئے دارالحکومت کیف سمیت دیگر شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔روسی حملے کے بعد یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے ملک میں مارشل نافذ کر دیا ہے۔

صدر پوٹن نے جمعرات کو مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں یوکرین میں ملٹری آپریشن کا اعلان کیا اور دیگر ملکوں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

صدر پوٹن نے یوکرین کے علاقے ڈونباس پر فوج کی چڑھائی کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں دارالحکومت کیف, خرکیف اور اڈیسہ میں دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔

روسی صدر نے یوکرین کی فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے ہتھیار پھینک دے اور گھروں کو واپس لوٹ جائے۔ ان کے بقول روس یوکرین پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن مشرقی یوکرین میں سویلین آبادی کے تحفظ کے لیے یہ حملہ ضروری تھا۔

پوٹن ےالزام عائد کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ماسکو کی جانب سے پیش کردہ سیکیورٹی یقین دہانی اور یوکرین کو نیٹو اتحاد سے دور رکھنے کے روسی مطالبے کو نظر انداز کر رہے تھے۔

یوکرین تنازع: روس پر کس ملک نے کیا پابندیاں عائد کی ہیں؟

روس کی جانب سے مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں میں فوج داخل کرنے کے احکامات کے بعد امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ مغربی ممالک نے کسی جارحیت کی صورت میں ماسکو کو مزید سخت اقدامات کرنے کا انتباہ بھی کیا ہے۔

امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان نے اپنی پابندیوں میں بینکوں اور روس کے امیر ترین افراد کو ہدف بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ جرمنی نے روس کے ساتھ ایک بڑی گیس پائپ لائن منصوبے پر کام روک دیا ہے۔

یوکرین اور روس کے درمیان جاری حالیہ تنازع کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران یورپ میں سلامتی کا سنگین ترین بحران قرار دیا جارہا ہے۔

روس یوکرین کو تاریخی اعتبار سے اپنی سرزمین کا حصہ تصور کرتا ہے۔ یوکرین کے مغربی ممالک کے اتحاد نیٹو سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے رد عمل میں صدر ولادیمیر پوٹن نے، گزشتہ برس امریکہ کے تخمینے کے مطابق، یوکرین کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ اہل کار تعینات کردیے تھے۔

روس نے منگل کو ان اہل کاروں کو یوکرین کے علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے اور اس کی وجہ ‘قیامِ امن’ بتایا ہے۔امریکہ نے اس جواز کو ‘احمقانہ’ قرار دیتے ہوئے اسے یوکرین پر حملے کا آغاز قرار دیا ہے۔

مشرقی یوکرین سے متعلق روسی فیصلہ چین کی مشکلات بڑھا سکتا ہے​

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مشرقی یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے اور وہاں اپنی فوجیں بھیجنے کے روسی فیصلے نے چین کے لیے ایک مشکل صورت حال پیدا کر دی ہے جسے ماسکو کا زیادہ قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اب اگر اسے روس کی جانب سے بین الاقوامی سرحدوں کو تبدیل کرنے کے یک طرفہ فیصلے کے حامی کی حیثیت سے دیکھا گیا تو اسے بھی اس کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

روسی صدر ولادی میر پوٹن کی حکومت نے پیر کے روز ان دونوں خطوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد، ان متنازع میں علاقوں میں فوج بھیجنے کا حکم دیا، جسے روس “امن فوج” کہتا ہے۔ یہ اقدامات صدر پوٹن کی ایک پرجوش تقریر کے بعد کیے گئے جس میں انہوں نے یوکرین کی ریاستی حیثیت پر سوالات بھی اٹھائے، جس سے ان شبہات کو مزید تقویت ملی کہ وہ یوکرین پر ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

یہ صورت حال چینی راہنما شی جن پنگ کے لیے مشکل اور پیچیدہ ہے، جنہوں نے اس ماہ کے اوائل میں پوٹن سے ایک ملاقات کے بعد روس کے ساتھ ایک لا محدود پارٹنر شپ کا اعلان کیا تھا۔ دونوں راہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات اس بات کا تازہ ترین ثبوت تھا کہ روس اور چین ایک ایسے ماحول میں زیادہ قریب آ گئے ہیں جب کہ وہ دونوں امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کو گھٹانے کی کوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یوکرین کا مسئلہ اب انہیں اس آزمائش میں ڈال رہا ہے کہ یہ بڑھی ہوئی پارٹنر شپ کتنی دور جاسکتی ہے۔

یوکرین میں کارروائیاں ‘حملے کا آغاز’ ہیں، بائیڈن کا روس پر پابندیوں کا اعلان

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یوکرین میں روس کی کارروائیوں کو ‘حملے کا آغاز’ قرار دیتے ہوئے روس کے بینکوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے خلاف سخت مالی پابندیوں کا حکم دے دیا ہے۔

امریکہ کے اس فیصلے کے بعد روس اور مغرب کے درمیان مخاصمت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جب کہ روس کےاراکینِ پارلیمان نے بھی صدر ولاد یمیر پوٹن کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ملک سے باہر فوجی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔

وائٹ ہاوس سے ایک بیان میں صدر جو بائیڈن نے صدر پوٹن کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کا آغاز ہو چکا ہے۔

بائیڈن نے وعدہ کیا کہ اگر پوٹن مزید آگے بڑھتے ہیں تو مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔امریکہ کے صدر نے یہ اقدام یورپی یونین کے 27 رہنماؤں کی تائید کے ساتھ اٹھایا جنہوں نے منگل کے روز روس کے عہدیداروں کو یوکرین سے متعلق اقدامات پر ہدف بنانے والی ابتدائی پابندیوں پر اتفاق کیا تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں