کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغان طالبان اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بلوچستان کے ضلع چمن میں باب دوستی جمعے کو دوسرے روز بھی بند ہے۔
واضح رہے کہ حکام کے مطابق افغان طالبان اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ایک سرحدی تنازع پر جمعرات کے دن شروع ہوا تھا۔
اس کے بعد جھڑپوں میں بی بی سی پشتو کے مطابق افغانستان میں قندھار کے ضلع سپن بولدک میں کم از کم چھ ہلاکتیں اور آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے۔
گزشتہ سال افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد چمن کی حد تک دونوں ممالک کی سرحدوں پر موجود فورسز کے درمیان یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور بڑی جھڑپ تھی۔
ان جھڑپوں کے بعد باب دوستی بند کر دیا گیا تھا اور گزشتہ رو سے دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی آمدورفت بند ہے جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر پیدا ہونے والے اس مسئلے کے بعد دونوں جانب سے حکام کو اطلاع مل چکی ہے جس کے بعد اب حالات قابو میں ہیں۔
بی بی سی نے بلوچستان کے مشیر داخلہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
’تاجروں کو نقصان کا سامنا ہے‘
پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پاکستان کے نائب صدر عمران کاکڑ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ سرحد کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد کی بندش سے دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کرنے والے تمام لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن ’تاجروں کی مشکلات کچھ زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ ان کو مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سرحدی معاملات کی کمیٹی سے چیمبر کے عہدیداروں کی ملاقات ہوئی جس میں تاجروں کو بتایا گیا کہ دونوں ممالک کے حکام کے درمیان فلیگ میٹنگ ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق یہ فلیگ میٹنگ گزشتہ رات ہوئی تھی لیکن جمعے کی صبح بھی سرحد پر باب دوستی کو نہیں کھولا گیا۔
سول انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ باب دوستی کو کب کھولا جائے گا لیکن دونوں ممالک کے حکام کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ جھڑپیں کن علاقوں میں ہوئیں؟
کوئٹہ میں سول انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ جھڑپیں سرحدی تنازع کے باعث جمعرات کو اندازاً دوپہر کو شروع ہوئیں اور شام تک جاری رہیں۔
چمن میں ایک اور سرکاری اہلکار نے بتایا کہ وقفے وقفے سے ہونے والی فائرنگ کے تبادلے میں چمن کے ہسپتالوں میں ایک زخمی بچے کے سوا کسی اور سویلین زخمی کو نہیں لایا گیا۔
ڈپٹی کمشنر چمن جمعداد مندوخیل کی جانب سے چمن کے ہسپتالوں میں باقاعدہ ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔
چمن میں سرکاری اہلکار نے بتایا کہ یہ جھڑپیں اڈا کہول اور کلی حاجی باچا سمیت دو سے تین مقامات پر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جھڑپیں بنیادی طور پر سرحدی تنازع کی بنیاد پر ہوئیں۔
کوئٹہ میں انتطامیہ کے اہلکار نے دعویٰ کیا کہ افغان طالبان پاکستانی حدود میں ایک سیکورٹی چیک پوسٹ بنا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا جس پر طالبان نے فائر کھول دیا اور اس پر پاکستانی فورسز نے جوابی فائرنگ کی۔
مگر دوسری طرف افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’افسوسناک بات ہے کہ پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ میں پہل کی گئی۔۔۔ ہم اس حوالے سے مکمل تحقیق کریں گے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا۔‘
چمن میں ایک سرکاری اہلکار نے بتایا ہے کہ جہاں تک سویلین زخمیوں کی بات ہے تو چمن کے ہسپتالوں میں صرف ایک زخمی بچے کو لایا گیا ہے۔
کوئٹہ میں ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ ان جھڑپوں کی وجہ سے چمن سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باب دوستی کو ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کیا گیا
کوئٹہ میں ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ ان جھڑپوں کی وجہ سے چمن سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باب دوستی کو ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر چمن جمعداد مندوخیل کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا تھا جس میں ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔
سرحدی ضلع چمن اور باب دوستی کی کیا اہمیت ہے
چمن سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ماضی میں پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
روسی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دور میں اس سرحدی علاقے میں افغان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان مستقل تناﺅ رہا۔
تاہم جب طالبان نے سنہ 1996 میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تو اس کے بعد خاموشی ہو گئی۔ لیکن طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان تناﺅ کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔
سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ یہ تناﺅ ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی جانب سے بعض منقسم دیہاتوں میں باڑ لگانے پر ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گذشتہ مردم شماری کے موقع پر سرحد پر منقسم دو دیہاتوں کلی لقمان اور جہانگیر میں ایک بڑی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ اس جھڑپ میں دونوں اطراف سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
گذشتہ سال افغان طالبان کی جانب سے افغانستان کا دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد جمعرات کو نہ صرف چمن شہر کے گرد و نواح میں افغان طالبان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں بلکہ اس سے قبل چمن کے مغرب میں نوشکی اور چاغی کے اضلاع سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بھی پاکستانی حکام کی جانب سے لگائے جانے والے خاردار تار کے معاملے پر کشیدگی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے سات اضلاع کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں جن میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبد اللہ، چمن، نوشکی اور چاغی شامل ہیں۔
ان میں سے چار اضلاع پشین، قلعہ عبد اللہ، چمن اور نوشکی کی سرحدیں قندھار سے متصل ہیں۔ ان تمام اضلاع سے لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی گزرگاہ ضلع چمن میں بابِ دوستی ہے۔
یہ سرحدی شہر نہ صرف بلوچستان اور قندھار کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے بلکہ یہ ہرات کے راستے پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے منسلک کرتا ہے۔ اس روٹ سے بڑے پیمانے پر آمد و رفت کے علاوہ افغان ٹرانزٹ کی گاڑیوں کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے۔
چمن میں باب دوستی کی دوسری جانب افغانستان کی سرحدی منڈی واقع ہے جسے مقامی طور پر ویش منڈی کہا جاتا ہے۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق اس منڈی کے باعث بلوچستان کے سرحدی شہر چمن سے روزانہ سینکڑوں پاکستانی تاجروں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کی بھی آمد ورفت ہوتی ہے۔