واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکا نے افغانستان کے ساتھ بیشتر تجارتی اور مالیاتی لین دین کی اجازت دیتے ہوئے نئے قواعد جاری کیے ہیں جو جنگ زدہ ملک افغانستان کی مفلوج معیشت کو بحالی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی جے بلنکن نے ‘جنرل لائسنس 20’ کے نام سے نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ واضح رہے کہ طالبان پر پابندیاں برقرار ہیں لیکن نئے قوانین انسانی امداد اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ میں آسانی پیدا کریں گے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدامات نجی کمپنیوں اور امدادی تنظیموں کو افغان حکومت کے اداروں کے ساتھ کام کرنے میں تعاون اور کسٹم، ڈیوٹی، فیس اور ٹیکس ادا کرنے میں سہولت فراہم کریں گے، ان میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جن کی سربراہی انفرادی طور پر پابندیوں کا شکار افراد کر رہے ہیں۔
واشنگٹن کے جوولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ اجازت نامے کا یہ نیا اعلان بہت بڑا ہے لیکن یہ یوکرین کی خبروں میں دب گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تباہی کے دہانے پر موجود معیشت میں پابندیوں سے ٹکراؤ کے بغیر مزید لیکویڈیٹی داخل کرنے کی جانب ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے عالمی برادری سے افغانستان میں انسانی بحران کو روکنے اور افغانوں کو امن کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کی کوششوں کی حمایت میں پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا تھا۔
گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ بیجنگ کے بعد جاری ہونے والے پاک چین مشترکہ بیان میں بھی بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا کہ افغانستان کے مالیاتی اثاثوں کو غیر منجمد کیے جانے سمیت افغانستان کو مسلسل اور بہتر مدد اور معاونت فراہم کی جائے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے نام سے جانے والے کثیرالارب ڈالر کے سرمایہ کاری کے پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے، دونوں ممالک نے کہا کہ وہ افغانستان کے ساتھ سی پیک کی توسیع پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واضح کیا کہ مالیاتی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں، بین الاقوامی تنظیمیں اور نجی شعبے کی کمپنیاں امریکی پابندیوں کا احترام کرتے ہوئے افغانستان میں وسیع پیمانے پر لین دین اور سرگرمیاں کرسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے قوانین سے جن شعبوں کو فائدہ ہوگا ان میں ذاتی اور تجارتی بینکنگ، انفراسٹرکچر کی ترقی اور دیکھ بھال، کمرشل تجارت، نقل و حمل کے نظام کے لیے حفاظت اور دیکھ بھال کے آپریشنز، ٹیلی کمیونیکیشن اور معلوماتی لین دین شامل ہیں۔
15 اگست 2001 کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکا نے افغانستان کو انسانی امداد اور محدود اقتصادی مدد فراہم کرنا جاری رکھا، جبکہ اس نے امریکی بینکوں میں تقریباً 7 ارب ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کردیا۔
تاہم واشنگٹن نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے کہ طالبان حکمرانوں اور پابندیوں کی فہرست میں شامل افراد اور اداروں کو امریکی مالی امداد سے فائدہ نہ پہنچے۔
رواں ماہ کے آغاز میں اقوام متحدہ نے بھی اسی طرح کا ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو ایک تباہ کن انسانی بحران کا سامنا ہے، جس میں ملک کی تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ خوراک کی قلت کا شکار ہے۔
امریکی نائب وزیر خزانہ والی ایڈیمو نے نئے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اس سنگین بحران کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ہم ان خدشات کو دور کریں کہ پابندیاں تجارتی اور مالیاتی سرگرمیوں کو روک رہی ہیں۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ یہ اقدامات ضروری حد تک افغانستان اور اس کے حکومتی اداروں سے متعلق تمام لین دین کی اجازت دیتے ہیں سوائے ان کے جو براہ راست طالبان، حقانی نیٹ ورک یا امریکی پابندیوں کی وجہ سے ممنوع دیگر اداروں کو فائدہ پہنچائیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی تحویل میں موجود افغان اثاثوں کو امداد کے مستحق افغانوں اور 9/11 کے حملوں کے متاثرین کے لیے مختص کر دیا جو معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔