پاکستان سے خواتین اور بچوں سمیت 240 افغانی بے دخل

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) غیر قانونی طور پر افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے 200 سے زائد افغان باشندوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ پیر کی شب ان افراد کو طورخم سرحد پر طالبان حکام کے حوالے کیا گیا۔

ٹانک پولیس کے سربراہ وقار احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان افراد کو جنوبی وزیرستان کے راستے ٹانک میں داخل ہونے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا، یہ مجموعی طور پر 240 افراد تھے جن میں 26 خواتین اور 26 بچے بھی شامل تھے۔

ضلعی پولیس افسر نے بتایا کہ حراست میں لینے کے بعد پولیس تھانہ گومل نے پاسپورٹ ویزہ اور دیگر دستاویزات نہ ہونے پر ان کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں عدالت میں پیش کر دیا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق یہ افغان باشندے ٹانک کے راستے ملک کے دیگر اضلاع میں جانے کی کوشش کررہے تھے اور گومل پولیس نے گرداوری چیک پوسٹ پر انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ یہ لوگ جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا سے 37 مختلف گاڑیوں میں ملک کے دیگر علاقوں میں جانے کی کوشش کررہے تھے۔

گرفتار ی اور مقدمہ درج کرنے کے بعد ٹانک پولیس نے ان افغان باشندوں کو سینٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا تھا جہاں سے عدالتی احکامات کے بعد گرفتار افراد میں سے 210 کو افغانستان منتقل کرنے کے لیے طورخم میں طالبان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

ٹانک کے ضلعی پولیس آفیسر وقار احمد خان کے مطابق ادارہ برائے مہاجرین اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کے لیے جاری کردہ عبوری کارڈ فراہم کرنے پر عدالت نے 30 افراد کو رہا کرنے جب کہ دیگر کو واپس افغانستان بھیجنے کا حکم دیا۔

افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کے برسر ِاقتدار آنے کے بعد مختلف راستوں سے افغان باشندوں کی پاکستان آمد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

طورخم میں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ویزہ پر روزانہ کی بنیاد پر ڈھائی ہزار سے تین ہزار افراد پاکستان آ رہے ہیں جب کہ علاج معالجے کی عرض سے آنے والے بغیر پاسپورٹ کے افراد کی تعداد اوسطاً 50 کے لگ بھگ ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے قانونی طور پر واپس جانے والوں کی تعداد آنے والوں سے بہت کم ہے۔

پشاور ہی میں پہلے سے رہائش پذیر افغان باشندوں نے تصدیق کی کہ پاسپورٹ ویزہ اور دیگر دستاویزات پر افغانستان سے آنے والوں میں زیادہ تر لوگ وطن واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔

ننگرہار سے تعلق رکھنے والے لطیف خان کہتے ہیں کہ افغانستان میں غربت، بے روزگاری اور معاشی سرگرمیاں نہ ہونا ایک گھمبیر مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لوگ اب دیگر ممالک بالخصوص پاکستان جانے پر مجبور ہیں۔

افغانستان کے ایک اور سرحدی صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی سید رحمان رحمانی کا کہنا ہے کہ وطن چھوڑنے والوں میں اکثریت سابق حکومتوں میں سرکاری اور سیکیورٹی اداروں کے ملازمین کی ہے جو انتقامی کارروائیوں کے باعث ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں قید افغان باشندوں کی وطن واپسی

چند روز قبل خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر جیلوں میں قید 23 افغان باشندوں کو بھی عدالتی احکامات کے مطابق طورخم میں طالبان حکام کے حوالے کرکے افغانستان واپس بھجوایا گیا تھا۔

ان افراد میں اکثریت کو 14 فارن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا تاہم ان میں بعض افراد معمولی جرائم میں بھی گرفتار کیے گئے تھے ۔ طورخم میں حکام نے بتایا کہ ملک بھر میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر یا داخل ہونے والے افغان باشندوں کی گرفتاری اور افغانستان واپس بھجوانے کا سلسلہ جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں