اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو بلوچ طلبا کے خلاف درج مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا ہے اور عدالت کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی طور پر بھی غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو ذاتی حیثیت میں سات مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، ان میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کے علاوہ صحافی اور بلاگر اسد طور بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ یکم مارچ کو قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبا اپنے ساتھی عبدالحفیظ بلوچ کی بلوچستان سے مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا جس سے متعدد طلبا زخمی ہوئے تھے۔
پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او محمد شبیر کی مدعیت میں درج کیا جس میں کہا گیا ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا شاہ قمر بلوچ جو کہ بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے صدر ہیں، ان کی ایما پر پریس کلب کے باہر اکھٹے ہوئے اور وہ مظاہرہ کر رہے تھے۔
اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے، اس لیے مظاہرہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس ابتدائی ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین کو اس حوالے سے بتایا بھی گیا لیکن انھوں نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شاہ قمر بلوچ اور ایمان مزاری نے مظاہرین کو اشتعال دلوایا جس کے بعد مظاہرین ‘یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ کے نعرے لگاتے رہے اور بعد ازاں وہاں پر موجود پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں پر حملہ آور ہوئے جس سے تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
پولیس نے متعدد افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس مقدمے کی ایف آئی آر بھی سیل کر دی تھی تاہم عدالتی حکم پر ملزمان کو اس مقدمے کی ایف آئی آر کی کاپی فراہم کی گئی۔
پولیس نے ملزمان کے خلاف مجرمانہ سازش، کارِ سرکار میں مداخلت اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
’بلوچ طلبا کی آواز دبانے والوں کے خلاف پرچے ہونے چاہییں‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی طرف سے اس مقدمے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی تو سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبا اپنے ایک ساتھی کی جبری گمشدگی کے خلاف کافی دنوں سے نینشل پریس کلب کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔
انھوں نے کہا کہ یکم مارچ کو پرامن مظاہرہ کر رہے تھے کہ پولیس اہلکاروں نے ان پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج سے متعدد طلبا بھی زخمی ہوئے ہیں۔
ایس ایس آپریشنز کامران فیصل نے عدالت کو بتایا کہ اس کارروائی کے دوران صرف طلبا ہی زخمی نہیں ہوئے بلکہ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکار کیسے زخمی ہوئے اور ان کو کس قسم کی چوٹیں آئی ہیں؟
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی طرف سے طلبا پر جس قسم کا تشدد کیا گیا اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلوچ سٹوڈنٹس کو سننا چاہیے اور ان کی آواز دبانے والوں کے خلاف بغاوت کے پرچے ہونے چاہییں۔