واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) جہاں دنیا روس یوکرین تنازع پر خاصی منقسم دکھائی دیتی ہے وہیں ایک بین الاقوامی میگزین ووگ کو فیشن کی دنیا کی ایک عام سی خبر چھاپنے پر خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ووگ کے لیے صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب انھوں نے امریکی ماڈل جیجی حدید کی جانب سے یوکرین کے ساتھ ساتھ فلسطین کے لیے رقم عطیہ کرنے کی خبر شائع کی۔ یہ خبر جیجی حدید کی جانب سے اپنے انسٹاگرام پر شائع کی گئی سٹوری سے بنائی گئی تھی۔
اس انسٹا سٹوری میں جیجی حدید نے لکھا تھا کہ ’تاریخ میں ایک خوفناک وقت میں بھی ہمیں کپڑوں کے نئے ڈیزائن دکھانے کے لیے فیشن واک کرنی ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہمیں اپنے شیڈول پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں کسی مقصد کے لیے فیشن واک کروں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’میں سنہ 2022 کے اواخر کے فیشن شوز سے حاصل ہونے والی رقم یوکرین میں جنگ زدہ افراد اور فلسطین میں بھی ایسے ہی صورتحال کا سامنے کرنے والوں کی مدد کے لیے استعمال کرتی رہوں گی۔ ہماری آنکھیں اور دل تمام انسانی ناانصافیوں کے بارے میں کھلے رہنے چاہییں۔‘
So @GiGiHadid announced that she will be donating money to Ukraine & Palestine. @voguemagazine posted about this & edited it shortly after removing the word Palestine.
This is erasure 101.
And if this happens to Gigi, imagine what happens to the rest of us. pic.twitter.com/SnDy50EL6u
— Dr. Yara Hawari د. يارا هواري (@yarahawari) March 9, 2022
تاہم جب یہ خبر ووگ میگزین کی جانب سے شائع کی گئی اور اسے ووگ کے انسٹاگرام کے ذریعے شیئر کیا گیا تو ووگ انتظامیہ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
انسٹاگرام پر ان کی اس پوسٹ کے نیچے صارفین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے میگزین پر دو مختلف تنازعات کا موازنہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ پوسٹ انتہائی فضول ہے۔ ووگ اسرائیل مخالف بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بہت بُری صحافت ہے۔‘
تاہم ایک صارف نے لکھا کہ ’ناانصافی کہیں بھی ہو وہ پوری دنیا میں ناانصافی کے برابر ہے۔ بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ کوئی مدد کر رہا ہے۔‘
تاہم اس سلسلے میں میگزین پر تنقید اتنی زیادہ ہوئی کہ بظاہر دباؤ میں آ کر انھوں نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں ہی تبدیلی کر ڈالی اور اس میں جیجی حدید کی جانب سے فلسطین کو دی گئی امداد سے متعلق بیان کو حذف کر دیا۔
خیال رہے کہ جیجی حدید اور ان کی بہن بیلا حدید دونوں ہی کافی مقبول امریکی ماڈلز ہیں۔ دونوں کی پیدائش امریکہ میں ہوئی، تاہم والدہ یولینڈا حدید کا تعلق نیدرلینڈ سے ہے اور ان کے والد محمد حدید فلسطینی ہیں۔
جیجی حدید کا فلسطین سے تعلق اور بیلا حدید کی انسٹا سٹوری
گذشتہ برس جیجی حدید کی بہن بیلا حدید نے اپنی ایک انسٹا سٹوری میں اپنے والد کے پرانے امریکی پاسپورٹ کی تصویر لگا دی، جس میں جائے پیدائش کی جگہ واضح طور پر ‘فلسطین’ لکھا ہے۔ اس میں بیلا نے لکھا تھا ’میرے بابا اور ان کی جائے پیدائش، فلسطین۔‘
پھر ہوا یہ کہ یہ پوسٹ بظاہر انسٹاگرام نے ہٹا دی۔
اس کے بعد بیلا حدید نے ‘انسٹاگرام کو میرا پیغام۔۔’ کے نام سے ایک سٹوری پوسٹ کی، جس میں انھوں نے لکھا کہ ‘انسٹاگرام نے میری یہ سٹوری ہٹا دی۔ مجھے اپنے والد کی جائے پیدائش پر فخر ہے، اس بات کے کس حصے میں ‘کسی کو ڈرانا، ہراساں کرنا، یا فحاشی’ شامل ہے؟’
اگلی سٹوری میں انھوں نے پھر اپنے والد کے پاسپورٹ کی وہی تصویر پوسٹ کی اور لکھا، ‘کیا آپ چاہتے ہیں کہ میرے والد آپ کے لیے اپنی جائے پیدائش بدل دیں؟’
انھوں نے لکھا، ’مجھے فلسطینی ہونے پر فخر ہے۔ سب کو اپنے والدین کی جائے پیدائش کی تصاویر شیئر کرنی چاہیے۔ انھیں یاد دلاؤ کہ تم کہاں سے ہو!!!‘
ان کی یہ سٹوریز ان کی بہنوں جیجی حدید اور الانا حدید اور ان کے والد محمد حدید نے بھی اپنے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹس پر شیئر کیں ہیں۔ جیجی حدید کے انسٹاگرام پر تقریباً سات کروڑ 28 لاکھ فالوورز ہیں۔
اگر آپ جیجی حدید کو انسٹاگرام پر فالو کرتے ہیں تو آپ کو یہ بھی پتا ہو گا کہ وہ انسانی حقوق، خاص طور پر فلسطین کے موضوع پر اکثر پوسٹ کرتی ہیں۔
وہ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے تعلیم سے متعلق ادارے (یونیسیف) سے بھی منسلک رہی ہیں۔
ووگ تنقید کی زد میں
دو روز قبل کی گئی پوسٹ میں تبدیلی کرنے پر بھی اب میگزین کو ’دباؤ میں آ کر صحافتی اصولوں کی پاسداری نہ کرنے‘ پر تنقید کا سامنا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ انتہائی شرمناک ہے۔ ووگ میگزین کو انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست افراد کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے تھا۔
اسی طرح ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یعنی ایک فلسطینی کا فلسطین کے لیے عطیہ کرنا مسئلہ کیوں ہے؟‘
خیال رہے کہ جیجی حدید ان کی بہن بیلا اور دیگر امریکی اداکاروں اور ماڈلز نے گذشتہ برس فلسطین اور اسرائیل تنازع سے متعلق احتجاج میں بھی حصہ لیا تھا اور اس حوالے سے کھلے عام بات بھی کی تھی۔
صحافی مہدی حسن نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں جیجی حدید کو شاباش دیتا ہوں کہ انھوں نے دنیا کے ایک سے زیادہ ملک میں جبر اور امن کے لیے آواز اٹھائی ہے۔‘
So @GiGiHadid pledges to donate her earnings from Fall 2022 to relief efforts for occupied Ukrainians *and* occupied Palestinians and then @voguemagazine magazine just erases the Palestinians from its @instagram post on her pledge? pic.twitter.com/rO7xao87lZ
— Mehdi Hasan (@mehdirhasan) March 8, 2022
ایک صارف جارج زمبا نے لکھا کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جو اب مجھے حیران نہیں کرتی۔ میری انسانوں سے امید ہر روز کم ہوتی جا رہی ہے۔‘
صحافی احمد شہاب الدین نے لکھا کہ ’حیرت ہے کہ ووگ کی جانب سے کی گئی اس حرکت کے بعد ’کینسل کلچر‘ نہیں جاگا۔‘
Somehow, a major publication scrambling to edit out the word “Palestine” from an article & social media post about a Palestinian supermodel donating to Palestinian relief did not ring cancel-culture alarm bells … wonder why? @GiGiHadid https://t.co/gXpmjZrIXh
— AHMED | أحمد (@ASE) March 9, 2022
اسرائیل فلسطین تنازع: تازہ ترین صورتحال
گذشتہ اتوار کو اسرائیل کی پولیس نے ایک فلسطینی نوجوان کو یروشلم پرانے شہر گولی مار کر اس وقت ہلاک کیا تھا جب پولیس کے مطابق اس نے ایک افسر پر چاقو سے حملہ کر کے اسے زخمی کیا تھا۔
تاہم بعد میں اس پولیس افسر کو علاج کی غرض سے ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی تھی۔
بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے رواں ماہ یکم مارچ کو ایک فلسطینی کو ’دو افراد کا پیچھا کرتے ہوئے‘ گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
فلسطینی حکام نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک ’قتل‘ قرار دیا ہے۔ ایک اسرائیلی سکیورٹی ذرائع نے ہارٹز کو بتایا کہ اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ دو فلسطینی کسی بھی طرح سے ‘علاقے میں کسی کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ رکھتے تھے۔’
اس سے ایک روز قبل اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے مغربی کنارے میں ایک پناہ گزین کیمپ میں جھڑپوں کے نتیجے میں دو فلسطینیوں کو مبینہ طور پر ہلاک کر دیا تھا۔
گذشتہ ماہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک نئی رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ اسرائیل ‘فلسطینیوں کے خلاف نسلی تعصب کی بنیاد پر تفریق سے متعلق جرائم سرزد کر رہا ہے’ اور اس کا ‘فلسطینیوں کے ساتھ ایک کم تر نسلی گروہ کے طور پر سلوک کرنے پر’ احتساب ہونا چاہیے۔
اس 280 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی جانب سے اسرائیلی حکام کا ‘فلسطینیوں کے خلاف جبر اور حاکمیت کے نظام’ نافذ کرنے کی تفصیلی لکھی ہے۔
فلسطینی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی فورسز کی جانب سے ‘طاقت کے ناجائز استعمال’ کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس مئی میں اسرائیل اور حماس میں کئی روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے بعد 10 مئی کو باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہوا۔
یہ کشیدگی مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے چند فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں سے نکالنے کرنے کے کوششوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔
لڑائی کے دوران اسرائیل کی جانب سے درجنوں فضائی حملے کیے گئے جبکہ حماس کی جانب سے بھی اسرائیل پر راکٹ فائر کیے گئے۔ اس لڑائی کے اختتام پر سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیل میں بھی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔