پشاور (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں شیعوں کی ایک مسجد میں گزشتہ جمعے کے دن خود کش بم حملہ کرنے والا داعش کا بمبار ایک افغان شہری تھا۔ نماز جمعہ کے دوران کیے گئے اس بم حملے میں 64 افراد مارے گئے تھے۔
اس حملے میں 200 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ پشاور سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حملہ آور کے افغان شہری ہونے کی تصدیق آج بدھ نو مارچ کے روز پولیس نے کی۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلدی میں انخلا کے دوران گزشتہ سال موسم گرما میں ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آ جانے کے بعد سے ایسی تنبیہات کی جا رہی تھیں کہ افغانستان ایک بار پھر شدید بدامنی کا شکار اور عسکریت پسندوں کی بھرتی کا گڑھ بن جائے گا۔
افغان طالبان نے اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ افغانستان کو دوبارہ دیگر ممالک پر حملوں کے لیے استعمال کیے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن طالبان حکومت کے ایسے بیانات کے برعکس ابھی گزشتہ ماہ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا تھا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کو اب اتنی زیادہ آزادی ہے، جتنی حالیہ برسوں میں دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
پشاور حملے کی تیاری افغانستان میں کی گئی، پاکستانی حکام
پشاور میں چار مارچ کو شیعہ مسلمانوں کی ایک بھری ہوئی مسجد میں نماز جمعہ کے وقت کیے گئے خود کش بم حملے کی چھان بین اور اس کے اب تک کے نتائج سے آگاہ پاکستانی پولیس کے دو اعلیٰ افسران نے بدھ کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس خود کش عسکریت پسند نے اپنے حملے کی تیاری افغاستان میں کی تھی۔
اس حملے کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی علاقائی شاخ داعش خراسان نے قبول کر لی تھی، جو گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان اور پاکستان میں فعال رہی ہے۔
حملہ آور عشروں سے پاکستان میں پناہ گزین تھا
پاکستان کے ان دو اعلیٰ پولیس افسران میں سے ایک نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آور ایک افغان شہری تھا، جس کی عمر 30 اور 40 برس کے درمیان تھی۔ اس نے عشروں پہلے اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ اس سکیورٹی اہلکار نے بتایا، ”یہ حملہ آور واپس افغانستان چلا گیا تھا، جہاں اس نے اس حملے کی تربیت لی اور تیاری کی تھی۔ پھر وہ اپنے اہل خانہ کو بتائے بغیر ہی واپس پاکستان آ گیا تھا۔‘‘
ان دو اعلیٰ پاکستانی پولیس افسران میں سے دوسرے نے بھی اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتایا، ”داعش خراسان اب ہمارے لیے ایک بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اس گروپ کے عسکریت پسند افغانستان سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں اور پاکستان میں اس کے شدت پسندوں کے سلیپنگ سیلز موجود ہیں۔‘‘
تین ‘سہولت کار‘ مارے گئے
پشاور مسجد حملے کی چھان بین کے اب تک کے نتائج پر افغان طالبان کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ پاکستانی پولیس نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ رات کیے گئے ایک آپریشن میں اس بم حملے کے تین ‘سہولت کار‘ مارے گئے جبکہ اس خونریز کارروائی میں ملوث ہونے کے شبے میں 20 افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔
اسی دوران داعش خراسان نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس کی طرف سے کیے گئے ایک اور خود کش بم دھماکے میں کل منگل کے روز پاکستان کے سات نیم فوجی سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔ یہ حملہ مبینہ طور پر جنوب مغربی پاکستان میں اس مقام کے قریب ہی کیا گیا، جہاں اس حملے سے آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے پاکستانی صدر دورے پر گئے ہوئے تھے۔