برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ہر سال ہزاروں افریقی مہاجرین یورپ کے خطرناک سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور ان میں سے بے شمار راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اب اسمگلروں نے ان مہاجرین کو تیسرے راستے یعنی کنیری جزائر سے یورپ پہنچانے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
افریقی براعظم کے کنیری جزائر پر حاکمیت اسپین کی ہے۔ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے یہ جزائر پرکشش سیاحتی منزل ہیں لیکن افریقی براعظم کے لوگ ان جزائر سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔
اپنے اپنے ملکوں سے نکلنے کے بعد اب ان کی اولین منزل کنیری جزائر ہیں۔ کنیری جزائر تک پہنچنے کے لیے بھی بحر اوقیانوس کے سمندری راستے کے ذریعے کمزور کشتیوں سے سفر کیا جاتا ہے۔ اس کو ایک انتہائی خطرناک سفر قرار دیا جاتا ہے۔
یورپ پہنچنے کے افریقی مہاجرین کے تین روٹ
براعظم افریقہ کے وہ افراد، جو یورپ کا سفر اختیار کرتے ہیں، ان کا ایک راستہ نائجر، مالی اور الجزائر سے مراکش ہے اور پھر اس ملک سے بحیرہ روم کو عبور کر کے یورپ کی جانب سفر شروع کیا جاتا ہے۔
اس مناسبت سے دوسرا روٹ بحیرہ روم کا ہے۔ اس کے ذریعے پہلے لیبیا پہنچا جاتا ہے اور پھر وہاں سے مالٹا اگلی منزل ہوتی ہے۔ مالٹا سے افریقی مہاجرین ناقص کشتیوں پر سوار ہو کر اطالوی جزائر جیسا کہ لامپے ڈوسا یا سسلی کی جانب بڑھتے ہیں۔
اب تیسرا راستہ انسانی اسمگلروں نے کنیری جزائر کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ روٹ زیادہ تر مغربی افریقی ممالک کے مہاجرین استعمال کرتے ہیں۔
سمندر کے خطرناک راستے
ان مختلف روٹس کے ذریعے انسانی اسمگلر افریقی مہاجرین کو یورپ پہنچانے کی مہم جوئی کرتے ہیں اور اس دوران کشتیاں الٹنے کے بےشمار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہسپانوی امدادی تنظیم کامینانڈو فرونٹیراس کے مطابق سن 2021 میں کنیری جزائر سے یورپ کے سفر پر چار ہزار مہاجرین سمندری لہروں کی نذر ہوئے۔
انٹرنیشنل تنظیم برائے مہاجرین بھی ان روٹس کو افریقی مہاجرین کے لیے خطرناک اور جان لیوا قرار دیتی ہے۔ اس نے بھی ان سمندری راستوں پر سینکڑوں مہاجرین کے ہلاک ہونے کو رپورٹ کیا ہے۔
ہسپانوی امدادی تنظیم شمال مغربی افریقی ممالک کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بحر اوقیانوس کا روٹ اس وقت انسانی اسمگلروں کے زیر استعمال زیادہ ہے اور اس پر انسانی ٹریفکنگ کرنے والے اسمگلر غیر معمولی فعال ہیں۔
کامینانڈو فرونٹیراس نامی تنظیم کے مطابق سن 2021 میں تہتر کشتیاں بحر اوقیانوس کی شدید موجوں کو برداشت نہیں کر سکی تھیں اور ان کے الٹنے کے حادثات میں گیارہ سو سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ان کے علاوہ جو لاپتہ ہوئے ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا۔
سمندری راستوں کے خطرے سے مہاجرین آگاہ ہوتے ہیں
کنیری جزائر سے یورپ کا سفر اختیار کرنے والے ایک افریقی مہاجر ماڈالا تونکارا کا کہنا ہے کہ اس خطرناک سمندری سفر میں ان افراد کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا، جن کے ڈوبنے کی خبر عام نہیں ہوتی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خطرناک سفر میں بے شمار افریقی مہاجرین کی موت بھوک سے بھی ہو جاتی ہے اور کئی پیاسے مر جاتے ہیں۔
تونکارا کا کہنا ہے کہ مرنے کے امکان اور تمام خطرات کو جانتے ہوئے بھی افریقی ملکوں کے افراد یورپ پہنچنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور انہیں کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین کے مطابق سن 2020 کے مقابلے میں مہاجرین کی آمد میں معمولی سی کمی ضرور ہوئی ہے۔ ہسپانوی وزارتِ داخلہ کے مطابق سن 2021 میں بائیس ہزار تین سو افریقی مہاجرین غیرقانونی طور پر ان کے ملک پہنچے تھے۔
افریقی مہاجر ماڈالا تونکارا کا کہنا ہے کہ اس جیسے افراد کا افریقی ملکوں میں کوئی مستقبل نہیں اور جو بھی شخص وہیں رہنے کو ترجیح دیتا ہے، تو اس سے مراد ایک غیر یقینی مستقبل کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہے۔