کولمبو (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی) سری لنکا کے صدر نے عوام سے ایندھن اور بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ تاہم عوام آزادی ملنے کے تقریباً 75 برس بعد بھی ملک کے بدترین معاشی بحران کے لیے راجا پکشے حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔
سری لنکا کے صدر گوتابایا راجا پاکشے نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ ان کا ملک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ کرے گا۔ اس وقت ملک میں ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، جس کے خلاف مظاہرین نے بطور احتجاج صدارتی محل پر دھاوا بول دیا تھا اور اس واقعے کے محض 24 گھنٹے بعد یہ اعلان سامنے آیا ہے۔
سری لنکا کے صدر کا کہنا کہ معاشی بحران کے سبب ان کی حکومت آئی ایم ایف، دیگر ایجنسیوں اور بعض ممالک کے ساتھ قرض کی ادائیگیوں کو موخر کرنے پر بھی بات چیت کر رہی ہے۔
سری لنکا سن 1948 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پہلی بار اس وقت بدترین قسم کے معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور بہت سی ضروری اشیا کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کے صدر نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ بجلی اور ایندھن کے استعمال کو محدود کرنے میں مدد کریں۔
گرچہ سری لنکا میں یہ مسئلہ یوکرین کے تنازع سے پہلے ہی سے جاری ہے تاہم ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے حالیہ ہفتوں میں صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
صدر کا قوم سے خطاب
سری لنکا کے صدر راجا پاکشے نے صورتحال کے پیش نظر قوم کے نام خطاب کیا اور کہا، ” بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت کے بعد، میں نے ان کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ایندھن اور بجلی کے استعمال کو ممکنہ حد تک محدود کر کے، اس وقت عام شہری بھی ملک کے لیے اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس مشکل وقت میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔”
بڑے پیمانے پر احتجاج
ملک کی سیاسی جماعتوں اور سول گروپ نے اس معاشی بحران کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں۔
بااثر راجا پاکشے خاندان کے ناقدین ان اس بات کے لیے ان شدید نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی مہندا کو وزیر اعظم اور چھوٹے بھائی باسل کا وزیر خزانہ کا عہدہ دے رکھا ہے۔ اب اس صورت حال نے ان کی اقربا پروری اور بد انتظامی کے تئیں احساس کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
اہم اپوزیشن پارٹی نے منگل کے روز صدر کے دفتر کے قریب ایک زبردست مظاہرہ کیا تھا، جس میں خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ افراط زر کی شرحوں میں اضافے سے سری لنکا کے تقریبا ًسوا دو کروڑ لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سری لنکا کو اپنی درآمدات کے لیے مالی ادائیگی بہت مشکل ہو رہی ہے اس لیے ملک ریکارڈ سطح کی مہنگائی کے ساتھ ساتھ خوراک اور ایندھن کی بے مثال قلت سے لڑ رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا نے جزیرے کے سیاحتی شعبے کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور بیرون ملک مقیم سری لنکا کے باشندوں کی طرف سے بھی وطن بھیجی جانے والی رقم میں بھی کافی کمی آئی ہے۔