اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) یہ 20 اکتوبر 2020 کی بات ہے جب سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ جب (امریکی صدر) کلنٹن نے افغانستان پر ٹوماہاک کروز میزائل گرائے تھے تو ان میں سے کچھ غلطی سے (پاکستان کے صوبے) بلوچستان میں آ گرے اور ان میں سے جو ایک ثابت مل گیا اسے پاکستان نے ’ریورس انجینیئرنگ‘ کر کے اپنا ’بابر میزائل‘ بنا لیا۔
اگست 1998 کے دوران اسلامی شدت پسند تنظیم القاعدہ نے کینیا اور تنزانیہ میں قائم امریکی سفارتخانوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا اور اس کے جواب میں امریکہ نے افغانستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو کروز میزائل ’ٹوماہاک‘ سے نشانہ بنایا لیکن ایک میزائل اپنے نشانے کے بجائے غلطی سے پاکستان میں آ گرا تھا۔
پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی صدر بل کلنٹن کو ٹیلیفون کر کے اس معاملے پر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔
اس واقعے کے بعد چند امریکی اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ پاکستان اس میزائل کا بغور جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس کی ’ریورس انجینیئرنگ‘ کر کے ٹوماہاک قسم کا اپنا کروز میزائل تیار کر سکے۔
ریورس انجینیئرنگ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی بھی چیز کے تمام حصوں کو علیحدہ کر کے اس کی ساخت معلوم کی جاتی ہے اور اس کی مدد سے نئی ٹیکنالوجی تیار کی جاتی ہے۔
پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کا اپنے ایک تجزیے میں کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ نے پاکستان پر بہت دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان میں گرنے والے ٹوماہاک میزائل کے تمام پرزے اور حصے واپس کرے۔
اس وقت تو بہت سے ماہرین ایسے بھی تھے جن کا خیال تھا کہ شاید پاکستان اس میزائل کی ریورس انجینیئرنگ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن 11 اگست 2005 کو پاکستان نے اپنے پہلے کروز میزائل ’بابر‘ کا کامیاب تجربہ کر کے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا کیونکہ کروز میزائل کی ٹیکنالوجی دنیا میں چند ہی ممالک کے پاس تھی، جن میں پاکستان بھی شامل ہو چکا تھا۔
حال ہی میں انڈیا کا آواز سے تین گنا تیز چلنے والا سپرسانک کروز میزائل پاکستان کے ضلع خانیوال کے علاقے میاں چنوں میں گرا ہے۔ انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ نو مارچ کو پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا جس کی ’اعلیٰ سطح پر تحقیقات‘ کا حکم دے دیا گیا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے یکطرفہ کورٹ آف انکوائری کے ذریعے اس حادثے کی تحقیقات کا فیصلہ ناکافی ہے کیوںکہ یہ میزائل پاکستان کی حدود میں گرا، اس لیے پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ اس واقعے کے حقائق طے کرنے کے لیے مشترکہ تحقیقات کی جائیں۔
تاہم سرحد کے دونوں جانب حکام کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ’ان آرمڈ‘ یعنی غیر مسلح تھا اور اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس دوران بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آیا پاکستان ایک بار پھر انڈین میزائل کے ملبے کی ’ریورس انجینیئرنگ‘ کر کے اس قسم کا میزائل بنا سکتا ہے؟
انڈین میزائل ’تین منٹ 44 سیکنڈ‘ تک پاکستان کی حدود میں رہا
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بابر افتخار نے ذرائع ابلاغ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا پاکستان حدود میں داخل ہونے والا ’انڈین پروجیکٹائل‘ زمین سے زمین تک مار کرنے والا سپرسانک میزائل تھا جبکہ پاکستانی فضائیہ کے ایک آفسر کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس میزائل کا ملبہ تحویل میں لے لیا ہے اور وہ اس کا فارنزک جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔
انڈیا کی جانب سے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں واضح طور پر نہیں کہا گیا کہ حادثاتی طور پر فائر ہونے والا میزائل کون سا تھا۔
تاہم پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ یہ میزائل سپرسانک کروز میزائل تھا جو آواز کی رفتار سے تین گنا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پاکستان کی حدود میں تین منٹ 44 سیکنڈ تک رہنے کے بعد گر کر پاکستان کی سرحد میں 124 کلومیٹر اندر آ کر تباہ ہوا۔
پاکستانی عسکری ذرائع کا یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے اس میزائل کی نگرانی تب سے شروع کر دی تھی جب اسے انڈیا کے شہر سرسا سے داغا گیا تھا۔ اس کی پرواز کے مکمل دورانیے کا مسلسل جائزہ لیا گیا۔
خیال رہے کہ کروز میزائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایئر ڈیفنس سسٹم یا ریڈار کی جانب سے اس کا پتا چلانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ زمین کی سطح کے اوپر بہت ہی کم بلندی پر پرواز کرتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے پاس کون سی میزائل ٹیکنالوجی ہے؟
کروز میزائل کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ ’سب سانک‘ کروز میزائل آواز کی رفتار یا اس سے کچھ کم رفتار سے فاصلہ طے کرتے ہیں۔ دوسری قسم ’سپر سانک‘ میزائل کی ہے جو آواز کی رفتار سے تین گنا تیزی سے فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جبکہ تیسری قسم ’ہائپر سپر سانک‘ میزائل جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیزی سے فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کے پاس ’بابر‘ اور ’رعد‘ نامی سب سانک کروز میزائل موجود ہیں جو زمین سے زمین، فضا سے زمین اور زیر آب سے زمین کی سطح تک مار کرنے والے میزائل ہیں۔
تاہم انڈیا کے پاس اس سے جدید براہموس سپرسانک کروز میزائل موجود ہے جو روس کے اشتراک سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہائپر سپر سانک کروز میزائل براہموس دوم بھی تیاری کے مراحل میں ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ سنہ 2024 تک اس کا بھی تجربہ کر لیا جائے گا۔
براہموس کی بھی چار اقسام ہیں جن میں زمین سے زمین پر مار کرنے والا، فضا سے زمین پر، سمندر کی سطح سے زمین پر اور سمندر کی سطح سے نیچے مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔
براہموس میزائل کے بارے میں کہا جاتا کہ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے تیز رفتار میزائل ہے اور اپنی تیز رفتار اور زمین سے بہت کم فاصلے پر پرواز کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے میزائل شکن نظام کی جانب سے اس کی نشاندہی کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ میزائل کم وقت میں جوہری یا رواہتی ہتھیار زیادہ فاصلے تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کیا پاکستان براہموس میزائل کی ریورس انجینیئرنگ کر سکتا ہے؟
پاکستان کے پاس اس وقت سپرسانک یا ہائپر سانک کروز میزائل ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے۔
تو کیا براہموس کا پاکستان میں گرنا اس کے لیے ایک موقع ہو سکتا ہے کہ یہ اس کی ’ریورس انجینیئرنگ‘ کر کے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر سکے؟
سینٹر فار ایرو سپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر سید محمد علی کا کہنا ہے کہ کیونکہ یہ میزائل گر کر تباہ ہو گیا تھا لہٰذا یہ مشکل ہے کہ موجودہ شکل میں اس کی ریورس انجینیئرنگ کر کے اپنا میزائل تیار کر لیا جائے۔
’آپ کو اس قسم کی ٹیکنالوجی کے لیے پورا انفراسٹرکچر چاہیے ہوتا ہے، ٹیکنالوجی پر دسترس چاہیے ہوتی ہے تب جا کر ایسا ممکن ہو پاتا ہے۔ ورنہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔‘
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو میزائل یا کوئی اور ہتھیار اپنی اصل حالت میں مل بھی جائے تو بھی اس کو دیکھ کر اس کی ریورس انجینیئرنگ کرنا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے جوہری سلامتی کے ماہر محمد خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ تباہ شدہ میزائل کے ملبے سے پاکستان کے لیے اس کو نئے سرے سے بنانا مشکل ہو لیکن وہ اس کے پرزوں اور حصوں کی جانچ پڑتال کر کے انڈیا کے پاس موجود میزائل ٹیکنالوجی کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
’ہر میزائل کسی نہ کسی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے منسلک ہوتا ہے۔ اس کے اندر متعدد قسم کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر نصب ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر اس کی نقل کرنا ممکن نہ بھی ہو تو اس کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی نوعیت کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے۔‘
امریکہ کے مڈلبری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر جیفری لوئس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اپنے کروز میزائل موجود ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان انڈین میزائل کے ملبے کا بغور جائزہ لے گا۔
لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ براہموس کی ٹیکنالوجی فروخت کے لیے بھی دستیاب ہے۔
دنیا کے بہت سے مملک پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے دوسرے مملک کے عسکری یا غیر عسکری ٹیکنالوجی کی ریورس انجینیئرنگ کر کے نقل بنا لی۔
حال ہی میں جب امریکہ کا سب سے جدید طیارہ ایف 35 بحیرہ جنوبی چین میں گر کر تباہ ہوا تو چین اور امریکہ کے درمیان اس کے ملبے کو تلاش کرنے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی۔ چین چاہتا تھا کہ اس کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو سکے تاہم امریکہ اس کا ملبہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ چین کے ہاتھ نہ لگ سکا۔
اسی طرح 1958 میں تائیوان کے لڑاکا طیارے کی جانب سے امریکی میزائل ’سائیڈ ونڈر‘ چلایا گیا مگر وہ پھٹا نہیں جسے چین نے اپنی تحویل میں لے لیا اور سوویت یونین کے حوالے کر دیا جہاں اس کی ریورس انجینیئرنگ کر کے ’کے-13‘ نامی میزائل بنا لیا گیا۔
میزائل ٹیکنالوجی کا ملنا مشکل اور چوری آسان
دنیا میں جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نظام موجود ہے جسے میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم یا ایم ٹی سی آر کہا جاتا ہے۔ اس وقت امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور انڈیا سمیت 35 ممالک اس کا حصہ ہیں تاہم پاکستان اس کا حصہ نہیں۔
اس نظام کے تحت وہی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی کا تبادلہ کر سکتے ہیں جو اس نظام کا حصہ ہیں لیکن اس کے لیے تمام رکن ملکوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہ نظام اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ کسی غیر ممبر ملک کو اس ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہ ہو۔
سید محمد علی کے مطابق اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دنیا میں میزائیل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر ملک چاہتا ہے کہ اس کے پاس جو ٹیکنالوجی ہے وہ دوسرے کسی ملک کے پاس نہ ہو تاکہ اس پر اس کی عسکری برتری قائم رہے۔ اس لیے عام ممالک کی ان ٹیکنالوجیز تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
’لیکن اس میں شک نہیں کہ تمام ہی ممالک ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی کو دیکھ کر سیکھتے ہیں اور اکثر اوقات اس سے بہتر ٹیکنالوجی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘