واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی) امریکا نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے قریب پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں ایران پر مغربی طاقتوں کی جانب سے عائد پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس ہفتے ایسے متعدد مثبت اشارے ملے ہیں کہ یہ معاہدہ بالآخر طے پا سکتا ہے اور اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ایران میں برسوں کی نظربندی کے بعد بدھ کے روز دو ایرانی نژاد برطانوی شہریوں کی رہائی بھی شامل ہے اور اب محض دو مسائل حل طلب رہ گئے ہیں۔
یہ مذاکرات گزشتہ اپریل میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، ایران اور روس کے درمیان شروع ہوئے تھے جس میں امریکا بالواسطہ طور پر حصہ لے رہا تھا البتہ اب کئی برسوں بعد دوبارہ یہ معاملہ حل کی جانب گامزن ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم ایک ممکنہ معاہدے کے قریب ہیں لیکن ہم ابھی تک وہاں پہنچے نہیں ہیں، ہمارا خیال ہے کہ باقی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایران کے اس دعوے کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ چھ فریقی مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کی بحالی پر رضامندی سے قبل اب محض دو مسائل حل طلب رہ گئے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے حالانکہ 11 ماہ پرانی بات چیت انتہائی نازک مرحلے پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے سلسلے میں جوہری پیش رفت کے پیش نظر اب بہت کم وقت باقی ہے اور ایران کے اس عمل سے کسی بھی معاہدے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ویانا مذاکرات کی صدارت کرنے والے یورپی یونین کے سفارت کار اینرک مورا نے گزشتہ ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وفود معاہدے کے متن پر بات چیت کے لیے تیار تھے لیکن یہ پیش رفت اس وقت رک گئی تھی جب روس نے اس ضمانت کا مطالبہ کیا تھا کہ یوکرین پر اس کے حملے کے نتیجے میں مغربی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ اس کی تجارت کو متاثر نہیں ہو گی۔
تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کو عندیہ دیا تھا کہ روس کو واشنگٹن سے تحریری ضمانتیں موصول ہوئی ہیں۔
اس خبر کے بعد بدھ کو ایران نے دو ایرانی نژاد برطانوی باشندوں نازنین زغاری ریٹکلف اور انوشہ اشوری کو رہا کر دیا جسے سفارتی پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ان کے شوہر رچرڈ ریٹکلف نے اے ایف پی کو بتایا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ مسائل حل ہو گئے۔
شمالی لندن میں رچرڈ ریٹکلف کی رہائش گاہ کے ضلع کی نمائندگی کرنے والے برطانوی قانون ساز ٹیولپ صدیق نے جہاز میں سوار ہونے والے اپنے حلقے کے شہری کی بیٹی کے ہمراہ مسکراہٹ بھری تصویر ٹوئٹ کی۔
نازنین نے لکھا کہ 6 سال ہو گئے ہیں اور مجھے یقین نہیں آتا کہ آخرکار میں اس تصویر کو شیئر کر سکوں گی۔
تیزی سے ہونے والی مثبت پیشرفت کے نتیجے میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ 2015 کے معاہدے کی بحالی میں شاید کچھ دن باقی ہیں اور ایک سفارتی ذرائع نے اس بات کیک تصدیق کی کہ معاملات درست سمت میں گامزن ہیں۔
تاہم مذکورہ ذرائع نے ساتھ ساتھ خبردار بھی کیا کہ ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔
یہ معاہدہ 2018 اس وقت ختم ہو گیا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈرامائی طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر کے ایران پر تیزی سے اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
اس کے نتیجے میں تہران معاہدے میں طے شدہ اپنی جوہری سرگرمیوں کی حد سے تجاوز کر گیا تھا۔
ایران نے بدھ کو کہا کہ ویانا میں اب دو اہم چیزوں پر بات ہونا باقی ہے جن میں ایک اقتصادی ضمانت بھی شامل ہے تاکہ امریکی انتظامیہ دوبارہ ٹرمپ دور کی طرح اس معاہدے کو منسوخ نہ کر سکے۔
اس پیشرفت سے باخبر ایک اور ذرائع نے کہا کہ دوسرا مسئلہ ایران کی طاقتور پاسداران انقلاب کی حیثیت کا ہے جسے امریکا نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
یوریشیا گروپ کے تجزیہ کار ہنری روم کے مطابق یہ مسائل اب اتنے اہم ہیں کہ انہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
ہنری روم نے مزید کہا کہ امریکا اور ایران دونوں ایک معاہدہ چاہتے ہیں اور ایران نے کچھ سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے روس کو اپنے اٹل موقف سے دستبردار ہونے پر آمادہ کر لیا ہے۔