سرینگر (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی مسلح شورش سے متاثر ہو کر وادی چھوڑنے والے کشمیری پنڈتوں کی رُوداد پر مبنی بالی وڈ فلم پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بعض کشمیری پنڈتوں کو بھی اعتراضات ہیں۔
فلم ساز وِویک اگنی ہوتری کی فلم ‘کشمیر فائلز’ سنہ 1990 کے دوران پنڈتوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر مبنی ہے۔
سنگین حالات میں بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر نہ چھوڑنے والے پنڈتوں کے رہنما سنجے تِکو کہتے ہیں کہ فلم نے جن واقعات کا ذکر کیا ہے وہ رونما تو ہوئے ہیں لیکن اُن کی عکاسی نہایت مبالغے اور اشتعال کے ساتھ کی گئی ہے۔
ان کے مطابق ’یہ فلم سبھی کشمیری مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پیش کرتی ہے جو ایک غلط بات ہے۔ مجھے یاد ہے جب حالات خراب تھے، مارا ماری تھی تو کتنے پنڈت خاندانوں کو کشمیری مسلمانوں نے بچایا۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 32 سال قبل مسلح شورش شروع ہوتے ہی مسلح عسکریت پسندوں نے مبینہ طور پر بڑی تعداد میں عام شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کیا۔
ان میں کشمیری بولنے والے ہندووٴں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ہند نواز سیاسی گروہوں کو مضبوط کرنے یا انڈین فوج اور سکیورٹی اداروں کی اعانت میں ملوث تھے۔
کشمیری پنڈت کون ہیں؟
کشمیری بولنے والے ہندووٴں کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پنڈت کہتے ہیں۔ مسلمانوں اور پنڈتوں کی زبان، فن و ادب، بعض سماجی اور ثقافتی روایات ایک جیسے تھے۔
یہاں تک کہ گھروں میں بچوں کے عرف بھی ایک جیسے ہوتے تھے۔ مسلمانوں کی لڑکی اور پنڈت کی لڑکی کا نام ڈیزی یا پنکی ہوتا تھا اور اسی طرح دونوں فرقوں کے لڑکے راجو، بیٹا، یا پرنس کہلاتے تھے۔
تاریخی طور پر کشمیری پنڈت سماج کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ رہا ہے اسی لیے صدیوں سے اقتدار کے قریب بھی تھا۔
ہزاروں نے کشمیر کیوں چھوڑا؟
لیکن سنہ 1990 میں جب انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر پر انڈین اقتدار کے خلاف مسلح شورش شروع ہوئی تو ہزاروں پنڈت خاندان کشمیر چھوڑ کر جموں اور دوسرے انڈین شہروں میں پناہ گزین ہو گئے۔
ایسا کیا ہوا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں کشمیری پنڈتوں نے وطن ترک کر دیا؟
یہ سوال پنڈتوں اور مسلمانوں کی نئی نسل کے درمیان سوشل میڈیا پر بحث اور کشمکش کا موجب بنا ہوا ہے۔
ان مباحثوں میں غالب بیانیہ یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں نے صدیوں سے ساتھ رہنے والے پنڈتوں کے خلاف مبینہ طور پر مسلح عسکریت پسندوں کی زیادتیوں کی حمایت کی، انھیں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا اور ان کی مبینہ نسل کشی کے لیے ماحول بنایا اور ‘کشمیر فائلز’ بھی اسی بیانیہ پر مبنی ایک ’ہیجان انگیز‘ فلم ہے۔
سنجے تِکو پانچ ہزار ایسے کشمیری پنڈتوں میں سے ہیں جنھوں نے اس قدر ہلاکت خیز حالات میں بھی گھر نہیں چھوڑا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہیں رہے، ہمیں بھی مسلمانوں کے ساتھ فوجی محاصروں کے دوران میدانوں میں جمع کیا جاتا تھا، ہمارے گھروں میں بھی فوج تلاشی کے لیے آتی تھی، ہمارے بھی لوگ کراس فائرنگ اور بم دھماکوں میں مارے گئے۔ اگر فلم واقعی سچ دکھا رہی ہے کہ ہماری کہانی کہاں ہے؟’
سنجے کہتے ہیں کہ ’تاریخی حقائق کو خاص انداز دے کر ایک مخصوص سیاسی نظریہ کو ابھارنے سے کشمیر ہی نہیں پورے ملک میں فرقہ واریت کا زہر پھیل رہا ہے۔‘
کل کتنے پنڈت مارے گئے؟
سنجے تِکو کی انجمن ‘کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی’ نے پولیس تھانوں کے مقدموں، اخباری اطلاعات اور زبانی شواہد پر مبنی ایک طویل سروے کیا ہے۔
اس سروے کے مطابق کل ملا کر اب تک 667 پنڈت شہری مارے گئے ہیں، ان میں سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے علاوہ پولیس، نیم فوجی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے لیے کرنے والے بعض اہلکار اور افسر بھی شامل تھے۔
سنجے تِکو کے مطابق ’یہ سروے ابھی مکمل بھی نہیں، میرا خیال ہے ہلاکتوں کی کل تعداد 800 ہو گی۔‘
وقفے وقفے سے پولیس ریکارڈز پر مبنی جو سرکاری یا غیرسرکاری دستاویزات سامنے آتی رہتی ہیں ان کے مطابق ہلاکتوں کی کل تعداد دو سے تین سو کے درمیان ہے۔ تاہم ان ہلاکتوں کو ’کشمیر فائلز‘ میں جینوسائیڈ یعنی نسل کشی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سنجے تِکو کہتے ہیں کہ ’ہاں کشمیری پنڈتوں کو مارا گیا، لیکن کیا مسلمانوں کو نہیں مارا گیا۔ پہلا قتل تو کشمیری مسلمان سیاست دان محمد یوسف حلوائی کا ہوا تھا۔
’کوئی حقائق کو من پسند انداز میں دکھا کر من پسند نتائج برآمد کرنا چاہتا ہو تو تاریخ بھی مسخ ہوتی ہے اور نفرتیں بھی پھیلتی ہیں۔‘
سنجے تو یہاں تک پوچھتے ہیں کہ اترپردیش میں انتخابی نتائج کے اعلان کا دن ہی فلم کی ریلیز کے لیے طے کیوں کیا گیا تھا؟
عدالتی تحقیقات کا مطالبہ
سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمرعبد اللہ نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ ان سبھی واقعات کی عدالتی تحقیقات کروائی جائیں جو سنہ 1990 میں خاص طور پر اسی سال کے 19 جنوری کے روز رونما ہوئے تھے جس کے بعد پنڈت خاندانوں نے ترک وطن شروع کر دیا۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہی رہنے والے پنڈتوں کے رہنما سنجے تِکو بھی کہتے ہیں کہ ’اس قدر سنگین حالات کو سمجھنے کے لیے ایک کمرشل فلم نہیں باقاعدہ تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔
’لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے سے کشمیری پنڈتوں کا بھلا نہیں ہو گا بلکہ اس سے نقصان ہو رہا ہے۔‘