دی ہیگ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/ رائٹرز) بھارتی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی جو گزشتہ سال افغانستان میں طالبان کے حملے میں مارے گئے تھے، ان کے والدین نے طالبان کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق رائٹرز کے لیے کام کرنے والے پلٹزر انعام یافتہ صحافی دانش صدیقی افغان اسپیشل فورسز کے ساتھ موجود تھے، 16 جولائی کو حکومتی فوجیوں کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے قریب واقع افغانستان کے قصبے اسپن بولدک کو طالبان سے واپس لینے کی ناکام کوشش کے دوران انہیں مارا گیا تھا۔
نئی دہلی میں مقیم وکیل ایوی سنگھ نے ایک آن لائن نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ دانش صدیقی کے والدین ہیگ میں قائم آئی سی سی میں طالبان کے چھ رہنماؤں اور دیگر نامعلوم کمانڈروں کے خلاف اس بنیاد پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ طالبان نے ان کے بیٹے کو نشانہ بنایا اور قتل کیا کیونکہ وہ ایک فوٹو جرنلسٹ اور بھارتی شہری تھا۔
طالبان کے دو ترجمانوں نے رائٹرز کی جانب سے معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے کالز اور پیغامات کا جواب نہیں دیا۔
دانش صدیقی نئی دہلی میں مقیم تھے اور انہوں نے ملک پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے طالبان کی مہم کو کور کرنے کے لیے افغانستان گئے تھے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی وہاں سے اپنی 20 سالہ طویل جنگ کو ختم کرنے کے لیے فوجیں نکال رہے تھے۔
وکیل ایوی سنگھ اور دانش صدیقی کے خاندان کا نیوز کانفرنس سے پہلے جاری کردہ ایک بیان میں کہنا تھا کہ 38 سالہ دانش صدیقی کو طالبان نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا اور ان کی لاش کو مسخ کر دیا گیا۔
اپنے بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کارروائیاں اور یہ قتل صرف ایک قتل نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہونے کے ساتھ ساتھ جنگی جرم بھی ہے۔
دانش صدیقی کی میزبانی کرنے والے افغانستان کے سابق اسپیشل آپریشنز کور کے ایک کمانڈر کا کہنا تھا کہ فوٹو جرنلسٹ غلطی سے دو کمانڈوز کے ساتھ پیچھے رہ گئے تھے جب طالبان کے ساتھ شدید لڑائی کے دوران فوجیں اسپن بولدک سے واپس آگئی تھیں۔
دوسری جانب طالبان نے اس بات کی تردید کی تھی کہ انہوں نے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو پکڑا تھا اور پھانسی دی تھی۔
افغان سیکیورٹی حکام اور بھارتی حکومت کے اہلکاروں نے دعویٰ کرتے ہوئے رائٹرز کو بتایا تھا کہ تصاویر کا جائزہ لینے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معلومات کو دیکھنے اور صدیقی کی لاش کے معائنے کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت کے بعد طالبان کی تحویل میں رہتے ہوئے ان کی لاش کو مسخ کر دیا گیا تھا۔
اگست میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان خبروں کی تردید کی تھی کہ دانش صدیقی کو پکڑا گیا تھا اور انہیں پھانسی دے دی گئی تھی.
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان سیکیورٹی فورسز اور بھارتی حکومت کے اہلکاروں کے دعووں کو مکمل طور پر غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز پہلے رپورٹ کرچکا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر یہ تعین کرنے سے قاصر تھا کہ طالبان نے دانش صدیقی کو جان بوجھ کر قتل کیا یا ان کی لاش کی بے حرمتی کی۔
واضح رہے کہ دانش صدیقی، رائٹرز کی اس فوٹوگرافرز کی ٹیم کا حصہ تھے جس نے روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران پر تصاویر پیش کرنے پر فیچر فوٹو گرافی کا 2018 پلٹزر ایوارڈ جیتا تھا۔
وہ 2010 کے بعد سے رائٹرز کے ایک فوٹو گرافر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور انہوں نے افغانستان اور عراق کی جنگوں، روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران، ہانگ کانگ کے مظاہروں اور نیپال کے زلزلوں پر رپورٹنگ کی تھی۔