حوثی باغیوں کا سعودی عرب میں تیل کی تنصیب پر میزائل اور ڈرون سے حملے، ہرطرف آگ بھڑک اٹھی

ریاض (ڈیلی اردو/اے پی/روئٹرز/اے ایف پی) یمن کے حوثی باغیوں کے سعودی آرامکو تیل کی تنصیب پر حملے کے بعد جدہ کے فارمولا ون ٹریک سے بڑی پیمانے پر شعلے بھڑکتے دیکھے گئے۔

ملکی خبر رساں رساں ادارے کے مطابق ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’ہم نے بلیسٹک میزائل اور ڈرون سے متعدد حملے کیے ہیں، جس میں آرامکو تنصیب جدہ اور ریاض میں اہم تنصیبات پر کیے جانے والے حملے بھی شامل ہیں‘۔

جدہ کے ایف ون ٹریک کے قریب دھواں اٹھتا دیکھا گیا، جائے وقوع کے قریب سے گزرنے والے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ وہ اپنی گاڑی کے اندر جلنے کی بو محسوس کر سکتے تھے۔

حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 16 حملے کیے، ان حملوں میں جیزان کے الیکٹریکل اسٹیشن، یمن کی سرحد سے متصل علاقے کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

حملےمیں اسی تیل کے ڈپو کو نشانہ بنایا گیا جس پر حالیہ دنوں میں حملہ کیا گیا تھا، شمالی جدہ بلک پلانٹ شہر کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بالکل جنوب مشرق میں واقع ہے، یہ مکہ جانے والے حجاج کرام کا ایک اہم مرکز ہے۔

سعودی تیل کی کمپنی آرامکو کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جبکہ سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن کی جانب سے بغیر کسی وضاحت کے ڈپو کو نشانہ بنانے والی دشمنانہ کارروائی کا اعتراف کیا گیا ہے۔

ایف ون کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’فی الحال ہم واقعے سے متعلق حکام کی جانب سے مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں‘۔

حوثی باغیوں کے زیر انتظام المسیرہ چینل پر حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا کہ جدہ میں واقع آرامکو تنصیب پر انہوں نے حملہ کیا جبکہ ان کی جانب سے ریاض اور دیگر مقامات پر بھی حملے کیے گئے۔

دریں اثنا سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن کی جانب سے بھی داہران کے علاقے میں حملوں کی تصدیق کی گئی جہاں پانی کے ٹینکوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے گاڑیاں اور گھر تباہ ہوگئے۔

ٹیلی ویژن نے بتایا کہ ایک الگ حملے میں جنوبی مشرقی علاقے کے الیکٹریکل سب اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا، یہ علاقہ یمنی سرحد سے قریب واقع ہے۔

خیال رہے شمالی جدہ بلک پلانٹ میں ڈیزل، مٹی کا تیل اور طیاروں کے لیے ایندھن کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، جو جدہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ سلطنت کا سب سے بڑا شہر ہے۔

حوثیوں کی جانب سے شمالی جدہ پلانٹ کو کروز میزائل کے ذریعے دو بار نشانہ بنایا گیا ہے، پہلا حملہ نومبر 2020 میں کیا گیا تھا جبکہ آخری حملہ اتوار کو کیا گیا ہے۔

سعودی عسکری اتحاد کا فوجی آپریشن

سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق آج ہفتے کے روز سعودی قیادت والے عسکری اتحاد نے ایسے حملوں کو روکنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے۔

عسکری اتحاد کے مطابق وہ حوثیوں کے کنٹرول والے یمنی شہروں صنعا اور حدیدہ میں حملے کر رہا ہے۔ سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کا مقصد ‘توانائی کے عالمی ذرائع کی حفاظت اور سپلائی چین کو یقینی بنانا‘ ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپنے مقاصد کے حصول تک فوجی کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

سعودی عرب میں فارمولا ون ریس

جدہ ہی میں اتوار کے روز فارمولا ون گراں پری ریس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ ریس کا مقام حملے کی زد میں آنے والی آرامکو کی تنصیبات سے محض 11 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

سعودی آرامکو فارمولا ون ریس کو اسپانسر بھی کر رہی ہے۔ اس سرکاری ادارے نے فارمولا ون کے ساتھ سن 2019 میں دس سالہ معاہدہ کیا تھا جس کی مالیت 588 ملین سے لے کر 880 ملین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔

جدہ میں آرامکو کی تنصیب کو جب نشانہ بنایا گیا اس وقت ریس کے لیے ٹریننگ سیشن جاری تھا۔ موجودہ چیمپئن میکس فرشٹاپن کو یوں محسوس ہوا جیسے ان کی گاڑی میں آگ لگ گئی ہے اور انہوں نے ریڈیو پر بتایا، ”مجھے جلنے کی بو آ رہی ہے، لگتا ہے میری کار میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘‘

حملے کے بعد کچھ دیر کے لیے ٹریننگ روک دی گئی تھی۔

ریس کی پروموٹر سعودی موٹر اسپورٹ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ”ہم آرامکو کے ڈپو پر حملے کی صورت حال سے آگاہ ہیں۔ ریس کے منتظمین سعودی سکیورٹی حکام اور فارمولا ون کی گورننگ باڈی سے رابطے میں ہیں اور سکیورٹی اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ریس کا ویک اینڈ شیڈیول معمول کے مطابق جاری رہے گا۔‘‘

فارمولا ون تنازعے کی زد میں

فارمولا ون اور تنازعات کوئی نئی بات نہیں، اسے اکثر آمرانہ حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر سن 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب میں 81 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اس بارے میں جب فارمولا ون کے سربراہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے سعودی عرب پر کی جانے والی تنقید سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔

ان تنازعوں کے باوجود سعودی عرب میں ریس کے انعقاد کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر فارمولا ون کے سی ای او اسٹیفانو ڈومنیکالی نے جواب دیا، ”ہماری یہاں موجودگی سے در اصل ان واقعات پر توجہ مرکوز ہوئی ہے، ورنہ یہ خبروں میں نہ آتے۔‘‘

سعودی عرب نے سن 2015 میں یمن پر حملوں کا آغاز کیا تھا۔ اقوام تحدہ نے گزشتہ برس کہا تھا کہ یمنی جنگ کی وجہ سے 50 لاکھ یمنی باشندے بھوک کا شکار ہیں اور قریب 40 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں