کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان کے طالبان حکمران کابل کے باہر غاروں میں بدھا کے قدیم مجسموں کی حفاظت کے لیے کام کر رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ ان کی یہ امید ہے کہ وہ اس مقام کو ترقی دینے کےلیے چینی سرمایہ کاری حاصل کر سکتے ہیں۔
ان غاروں کے بارے میں خیال ہے کہ ان میں دنیا کا تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ صورتحال دو دہائیاں پہلے کے بالکل برعکس ہے جب طالبان نے ملک کے ایک اور حصے میں مہاتما بدھ کے مجسموں کو تباہ کرکے دنیا کو مشتعل کیا تھا۔
یہ تبدیلی افغانستان کی معدنی دولت کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش ہے جو طویل عرصے سے جاری جنگ اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سےاب تک استعمال نہیں کی گئی۔ چین کو اس میں دلچسپی تو ہےلیکن وہ بین الاقوامی پابندیوں کے تحت طالبان کے ساتھ محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
طالبان کے مس عینک تانبے کی کان کے علاقے کی سیکیورٹی کے سربراہ ،حکم اللہ مبارز کا جو پہلی صدی عیسوی کے بودھ بھکشوؤں کی تعمیر کردہ خانقاہوں کی باقیات کا کھوج لگا رہے ہیں ، کہنا ہے کہ اصل کام ان آثار کو محفوظ بنانا ہے ،اور اس طرح ہم چین سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر سکتے ہیں۔ان کی حفاظت ہمارے اور چینیوں دونوں کےلیے اہم ہے۔
اس سے پہلے مبارز ایک طالبان لڑاکا یونٹ کے کمانڈر تھے ،جو ارد گرد کے پہاڑوں میں امریکی پشت پناہی والی افغان فورسز سے جنگ کررہا تھا۔
طالبان کا اچانک اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا افغانستان کی ان قیمتی کانوں کی اہمیت ظاہر کرتا ہے جنہیں پہلے دریافت نہیں کیا گیااور ان سے پہلے کے عہدیداروں کا اندازہ تھا کہ ان میں کھربوں ڈالر کی معدنیات پوشیدہ ہیں جو ملک کے ایک خوشحال مستقبل کی ضامن ہیں۔
افغانستان سےامریکہ کے افراتفری میں انخلاء نے جو خلا پیدا کیا ہے ،متعدد ملک جن میں ایران ،روس اور ترکی شامل ہیں اسے پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔لیکن بیجنگ سب سے بڑا دعوے دار ہے ۔اور وہ طالبان کے کنٹرول والے افغانستان میں مس عینک کے علاقے میں بڑے پیمانے پر منصوبہ شروع کرنے والی سب سے پہلی بڑی طاقت بن سکتا ہےجو ایشیا کےسیاسی نقشے کو تبدیل کر دے گا۔
سن 2008ء میں اس وقت کے صدر حامد کرزئی کی انتظامیہ نے مس عینک سے اعلیٰ درجے کا تانبہ نکالنے کے لیے چین کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبے ( ایم سی سی) کے تحت30 سال کا ایک معاہدہ کیا تھا ۔لیکن یہ منصوبہ انتظامات اور کانٹریکٹ کے مسائل کے باعث آگے نہیں بڑھ سکا اور ابتدائی تجربوں سے پہلے ہی ملک میں جاری تشدد سے گھبرا کر چینی عملہ سن 2014ء میں واپس چلا گیا۔
پچھلے اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ،گروپ کے نامزد کردہ مائیننگ اور پیٹرولیم کے نئے قائمقام وزیر ، شہاب الدین دلاور نے اپنے عملے پر زور دیا کہ وہ چین کی کمپنیوں سے رابطے کریں ۔
طالبان کی وزارت خارجہ امور کے ڈائریکٹر زیاد راشدی نے ایم سی سی کے بنائے ہوئے کنسورشیم ،چینی میٹالرجیکل کارپوریشن اور ژینگ شی کاپر لمیٹڈ سے رابطہ کیا۔وزارت کے عہدیداروں کے مطابق وزیر شہاب الدین دلاور نے پچھلے چھ ماہ میں ایم سی سی سے دو ورچوئل میٹنگز کی ہیں ۔ایم سی سی کی ایک ٹیکنیکل کمپنی باقی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیےآئندہ ہفتوں میں کابل آرہی ہے ۔اہم کام مجسموں کو دوسری جگہ منتقل کرنا ہے۔
راشدی کا کہنا ہے کہ چینی کمپنیوں کے لیے موجودہ صورتحال بہترین ہے ۔ان کے مقابلے میں کوئی کمپنی نہیں ہے اور ہماری حکومت کی طرف سے انہیں ہر طرح کی مدد اور تعاون حاصل ہے۔
افغانستان میں چینی سفیر کا کہنا تھا کہ بات چیت جاری ہے ۔تاہم، انہوں نے تفصیل نہیں بتائی۔
چین کا ہدف نادر معدنیات کی دریافت ہے۔چین نے طالبان حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا ،لیکن اس نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان اثاثوں کو واگزار کریں اور اس نے کابل میں اپنا سفارتی مشن جاری رکھا ہے۔
افغانستان کے لیے مس عینک کے معاہدے سے ملک کو سالانہ ڈھائی سو سے تین سو ملین ڈالر آمدنی ہو گی،جو سترہ فیصد اضافہ ہے ،اس کے علاوہ کانٹریکٹ کی مدت طویل ہونے پر آٹھ سو ملین فیس بھی ملے گی۔
ایک ایسے ملک کےلیے یہ ایک بہت بڑا سرمایہ ہے جو بڑے پیمانے پر غربت کا شکار ہے، جسے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغان اثاثوں کو منجمد کرنے کے بعد سے مالی خسارے کا سامناہےاور بین الاقوامی تنظیموں نے جس کے عطیات کے فنڈز روکے ہوئے ہیں۔