کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) “میں جس حالات سے گزر رہی ہے، اللہ نہ کرے کسی پر بھی ایسا وقت آئے، میرے اپنوں نے ہی میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، مجھے سب نے اکیلا کر دیا ہے، میں اسی مجبوری میں کیس سے ہٹ رہی ہوں۔ مجھے کوئی لالچ نہیں۔ میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، جو بہتر فیصلہ کرے گا۔ میں یہ کورٹ کچہری نہیں لڑنا چاہتی، پاکستان میں انصاف ہے ہی نہیں۔”
یہ الفاظ ہیں شیریں ناظم الدین جوکھیو کے جن کے 27 سالہ شوہر ناظم الدین جوکھیو کو گزشتہ برس نومبر میں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن میں واقع ایک فارم ہاؤس میں سفاکانہ تشدد کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔
شیریں کی جانب سے اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ان کے شوہر کے قتل میں اللہ کی رضا تھی، بیانِ حلفی کے مطابق ابتدا میں قتل کے بارے میں اسے غلط معلومات دی گئیں تھیں۔ لیکن اپنی “تحقیق” سے شیریں کو پتہ چلا کہ قتل میں عبدالکریم جوکھیو، جام اویس، جمال جوکھیو، عبدالرزاق اور دیگر ساتھیوں کا کردار نہیں تھا۔
دوسری جانب کیس کے مدعی اور مقتول کے بھائی ناظم جوکھیو کے وکیل مظہر جونیجو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ مقتول کی بیوہ کی جانب سے کیس سے دستبرداری کے بعد بھی اس مقدمے کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوکہ یہ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہوا ہے اور اس قانون میں صلح کی کوئی گنجائش نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مقدمے میں ملوث ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے تمام کوششیں کی جائیں گی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مقتول کا بھائی افضل کئی ہفتوں سے منظر سے بالکل غائب ہے اور اب وہ مقدمے کی پیروی کے لیے بھی عدالت نہیں آ رہا۔
“انصاف کے حصول میں رکاوٹیں بدقسمتی ہے”
انسانی حقوق کے کارکن شیریں کی جانب سے مقدمے سے دستبرداری کو انصاف کا قتل قرار دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی کونسل ممبر اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو سزائیں دلوانے کے لیے ریاست کی جانب سے کوئی بھی جذبہ نظر نہیں آ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں اسلام آباد میں لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے کے مقدمے میں شکایت کنندہ کی جانب سے کیس سے دستبرداری کے باوجود بھی پراسیکیوشن نے مقدمے کا بھرپور دفاع کیا اور بالآخر ملزمان کو عمر قید کی سزائیں مل سکیں اور اس طرح ایک اچھی مثال قائم کی گئی۔
لیکن دوسری جانب سندھ میں برسر ِاقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس کیس میں اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے براہ راست ملوث ہونے کے باعث ایسی کسی کارروائی سے گریزاں نظر آتی ہے۔ جو انصاف کا قتل اور بدقسمتی ہے۔
اُن کے بقول ملک کے کریمنل جسٹس سسٹم میں نقائص بھی اس واقعے سے خوب عیاں ہوتے ہیں جب وسائل سے محروم شخص بااثر افراد کے ہاتھوں مجبور ہو کر انصاف کے حصول سے مایوس ہو جاتا ہے۔
‘پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی مقدمے کی کارروائی شروع نہ ہو سکی’
اس قتل کے بعد گڈاپ پولیس نے میر پور ساکرو سے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس سمیت پانچ لوگوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیاتھا۔
لیکن پانچ ماہ گزر جانے کے بعد مقدمے کی پیش رفت یہ ہے کہ سندھ پولیس کی جانب سے کیس کا چالان تک پیش نہیں کیا گیا جس کے بعد کیس کی باقاعدہ کارروائی شروع ہوتی ہے۔
اس کیس میں رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے بھائی اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم مفرور تھے اور قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد جب اس پر ووٹنگ کا مرحلہ قریب آیا تو بیرون ملک مقیم جام عبدالکریم نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی اور جمعرات کو کراچی پہنچ کر انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کا رُخ کیا جہاں ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی گئی۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ناظم جوکھیو کو سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جس میں انہوں نے ایک عرب شکاری کو اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے سے روکا تھا۔ اور اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ناظم جوکھیو نے ایک اور ویڈیو میں اپنی جان کے خطرے سے بھی آگاہ کیا تھا۔ لیکن اگلے ہی روز ان کی لاش جام اویس کے فارم ہاؤس سے برآمد ہوئی تھی۔
مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کے مطابق جام اویس کے پرسنل سیکریٹری نیاز سالار نے فون کرکے انہیں رکن اسمبلی کے گھر بُلایا۔ وہاں پہنچنے پر جام اویس کے حکم پر ناظم پر بدترین تشدد کیا گیا، جس کے باعث وہ ہلاک ہو گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ اس کیس میں محکمٔہ داخلہ سندھ نے آئی جی سندھ کو کہا ہے کہ کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کیا جائے۔ یہ تبدیلی پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی سفارش پر کی جا رہی ہے۔ محکمہ داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر سرکاری وکیل کی اجازت کے بغیر ہی عدالت میں پیش ہوا جس سے اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ تاہم کیس پر نظر رکھنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے کیس میں تاخیری حربے اپنائے جارہے ہیں جس کا لامحالہ فائدہ انتہائی بااثر ملزمان کو مل سکتا ہے۔
ادھر دوسری جانب سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے یہ کہتے ہوئے اس تاثر کو رد کیا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے کیس کوئی رکاوٹ ڈالی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے تفتیشی حکام سے کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کی پیروی کریں جس کا تفتیشی حکام کی جانب سے ابھی تک جواب نہیں آیا ہے۔