کولمبو (ڈیلی اردو/ رائٹرز) ملک میں جاری معاشی بحران کے سبب ایندھن اور دیگر اشیا کی قلت کو دیکھتے ہوئے سری لنکا کی حکومت نے ہفتے کے روز کرفیو نافذ کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ کرفیو ایک ایسے موقع پر نافذ کیا گیا ہے جب سیکڑوں وکلا نے صدر گوٹابایا راجا پاکسے پر زور دیا کہ وہ ملک میں حالیہ بدامنی کے بعد متعارف کرائی گئی ایمرجنسی کو منسوخ کریں۔
Social media platforms blocked in Sri Lanka amid curfew, opposition protest https://t.co/BRrUB5AKjm pic.twitter.com/3kwfqR6AQx
— Reuters (@Reuters) April 3, 2022
محکمہ اطلاعات نے کہا کہ ملک بھر میں کرفیو ہفتے کی شام 6 بجے سے پیر کی صبح 6 بجے تک جاری رہے گا۔
صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے جمعہ کو ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جس سے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا خدشہ پیدا ہوا تھا، ماضی میں ہنگامی اختیارات نے فوج کو بغیر وارنٹ مشتبہ افراد کو گرفتار اور حراست میں لینے کے اختیارات دیے تھے، لیکن موجودہ اختیارات کی شرائط ابھی واضح نہیں ہیں۔
2 کروڑ 20 لاکھ آبادی پر مشتمل سری لنکا کو اس وقت دن میں 13 گھنٹے تک بجلی کی بندش کا سامنا ہے کیونکہ حکومت کو ایندھن اور دیگر ضروری درآمدات کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے۔
کولمبو کے رہائشی 68 سالہ دکاندار نشان آریاپالا نے بتایا کہ جب چیزیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جب لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ملک کے سیاسی رہنماؤں کو سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے۔
گوٹابایا راجا پاکسے نے کہا کہ امن عامہ کے تحفظ اور ضروری سامان اور سروسز کو برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کی ضرورت تھی۔
ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی قلت پر مشتعل سیکڑوں مظاہرین کی راجا پاکسے کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور فوج کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور ان مظاہرین نے سری لنکن صدر کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور جمعرات کو پولیس اور فوج کی متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کردیا تھا۔
پولیس نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے جمعے کو کولمبو اور اس کے گردونواح میں کرفیو نافذ کر کے 800 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا تھا، ہفتہ کو دکانیں کھل گئی تھیں اور ٹریفک معمول پر رہی جبکہ کچھ پیٹرول اسٹیشنوں پر پولیس تعینات رہی۔
Over 600 Protestors Arrested In #SriLanka For Violating Curfew
NDTV's Sreeja MS reports from #Colombo
Read more: https://t.co/3eeRKiT8xB pic.twitter.com/qVk2tcpNYe
— NDTV (@ndtv) April 3, 2022
سری لنکا کی بار ایسوسی ایشن کے اراکین نے اپنی اپیل میں کہا کہ حکومت عوام کی امنگوں کو سمجھنے اور ملک کے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کا احترام کیا جائے۔
سری لنکا میں امریکی سفیر جولی چنگ نے ہنگامی حالت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا کہ سری لنکا کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے اور جمہوری طریقوں کے اظہار کے لیے یہ ضروری ہے، میں صورتحال کو قریب سے دیکھ رہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آنے والے دنوں میں تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
Sri Lankans have a right to protest peacefully – essential for democratic expression. I am watching the situation closely, and hope the coming days bring restraint from all sides, as well as much needed economic stability and relief for those suffering.
— Ambassador Julie Chung (@USAmbSL) April 2, 2022
غیر ملکی کرنسی کی شدید قلت کو اجاگر کرتے ہوئے ساڑھے 5 ہزار میٹرک ٹن کھانا پکانے والی گیس لے جانے والے جہاز کو سری لنکا کے پانیوں سے نکلنا پڑا کیونکہ اس کا آرڈر دینے والی لاف گیس کمپنی اس کی ادائیگی کے لیے مقامی بینکوں سے 49 لاکھ ڈالرز حاصل نہیں کر سکی۔
لاف گیس کے چیئرمین ڈبلیو ایچ کے ویگا پتیا نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ لوگوں کو کھانا پکانے والی گیس کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن اگر ڈالر نہیں ہوں گے تو ہم ان کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم پھنس گئے ہیں۔
جاری بحران کو سابقہ حکومتوں کی معاشی بدانتظامی کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے اور کووڈ 19 کے دوران یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی تھی، کیونکہ اس وبائی مرض نے ملک کی سیاحت اور ترسیلات زر کو متاثر کیا تھا۔
2019 میں شاندار فتح کی بدولت اقتدار میں آنے والے گوٹابایا راجا پاکسے کی سیاسی مقبولیت میں حالیہ بحران کی وجہ سے نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج کے ساتھ ساتھ بھارت اور چین سے قرضوں کے حصول کے لیے بھی کوشاں ہیں۔