اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
آج ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، کون ذمہ دار ہے؟ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے گئے اور ان کی ہی خلاف ورزی کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اور وہ دفعات لگائیں جو لگتی ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دفعات اس لیے لگائی گئی تھیں تاکہ عدالت سے بچا جا سکے، یہ بتا دیں کہ اس سب سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔
پیکا آرڈیننس
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 20 فروری کو چھٹی کے دن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی ہے۔
آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔
پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی ویژن پر کسی بھی ‘فرد’ کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔
جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔