نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائدکیے جانے کے بعد ریاست کے ساحلی علاقوں میں ہندوؤں کے ایک مذہبی تہوار کے موقع پر مسلم دکان داروں کے بائیکاٹ کی بھی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کرناٹک میں لاؤڈ اسپیکرز سے اذان دینے اور حلال گوشت کی فروخت پر بھی پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ہندو تنظیموں کی جانب سے یہ مطالبہ کرناٹک کے بعد دوسری ریاستوں میں بھی کیا جانے لگا ہے۔ دار الحکومت دہلی میں تین میونسپل کارپوریشنز میں سے دو کے میئر زنے حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے۔
حکم کے مطابق ایک مذہبی تہوار نوراتری کے دوران ہندو مذہب کے پیروکار مندروں میں پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ لہٰذا اس دوران گوشت کی فروخت بند کر دی جائے۔ چونکہ اس دوران ہندو گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں، اس لیے گوشت کی دکانیں کھلنے سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
مغربی دہلی حلقے سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ پرویش صاحب سنگھ ورما نے حلال گوشت کی فروخت پر پابندی کے مطالبے کی حمایت کی اور کہا کہ پورے ملک میں پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی تنازع میں نہ پڑیں۔
یاد رہے کہ اس سال نوراتری کا تہوار دو اپریل سے 11 اپریل کے درمیان منایا جا رہا ہے۔
اس حکم کے بعد دہلی میں گوشت کے تاجروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ بعض دکانداروں نے اپنی دکانیں بند کر دی ہیں۔ لیکن بعض دیگر دکانداروں کا کہنا ہے کہ انہیں گوشت کی فروخت پر پابندی کا کوئی تحریری حکم نہیں ملا ہے اور اگر پابندی لگانا ہے تو پہلے سلاٹر ہاؤس بند کیے جائیں۔
دہلی اقلیتی کمیشن نے مذکورہ دونوں میئرز کو نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں وضاحت پیش کریں کہ انہوں نے ایسا حکم کیوں دیا۔
لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی کا مطالبہ
ادھر دائیں بازو کی بعض ہندو تنظیموں نے دھمکی دی ہے کہ اگر لاؤڈ اسپیکرز سے اذان دینا بند نہیں کیا گیا تو وہ مندروں اور مسجدوں کے سامنےاونچی آواز میں اپنی مذہبی کتاب ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کریں گے۔
ممبئی کی ایک ہندو احیا پسند سیاسی جماعت ’مہاراشٹرا نونرمان سینا‘ (منسے) کے صدر راج ٹھاکرے نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر لاؤڈ اسپیکرز سے اذان بند نہ ہوئی تو مندروں میں اونچی آواز میں ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق دو اپریل کو راجستھان کے کرولی قصبے میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے ایک بائیک ریلی نکالی اور ایک مسجد پر چڑھ کر وہاں زعفرانی پرچم لہرایا اور مسجد کی چھت پر ڈانس کیا۔
مقامی مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی جس پر دونوں جانب سے پتھراؤ ہوا اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر دی۔ اس واقعہ کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔
’ہم عدالتی حکم پر عمل کر رہے ہیں‘
اذان پر پابندی کے مطالبے کے سلسلے میں کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت شور کم کرنے کے لیے مسجدوں سے اذان کی آواز کے سلسلے میں عدالت کی جانب سے مقرر کردہ حد کو نافذ کر رہی ہے۔
انہوں نے بنگلور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن اسے جبراً نافذ نہیں کیا جائے گا بلکہ اتفاقِ رائے سے کیا جائے گا۔
اس بارے میں بعض سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ حکم تمام مذہبی عبات گاہوں کے لیے ہے لیکن ہندو تنظیمیں صرف اذان پر پابندی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق کرناٹک کی 250 مسجدوں کو لاؤڈ اسپیکر کی آواز مقررہ حد تک محدود کرنے کے نوٹس ملے ہیں۔
کارواں میگزین کے ایڈیٹر ہرتوش سنگھ بل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان واقعات کا مقصد مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ آر ایس ایس مسلمانوں کو دلتوں سے بھی بدتر حالات میں پہنچا دینا چاہتی ہے۔ ان کے خیال میں اس کا مقصد بھارت کو ہندو اسٹیٹ بنانا ہے اور وہ لوگ اس میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔
سینئر تجزیہ کار ویریندر سینگر نے ان کی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ منظم مہم کا حصہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ویریندر سینگر کا کہنا تھا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس چاہتی ہیں کہ مسلمان ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ یہ حکومت تمام آئینی اداروں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن کو اپنا طابع بنا لیا ہے۔ عدالتیں بھی حکومت کی ہمنوائی کر رہی ہیں۔
’مسلمانوں سے مراعات واپس لینے کا وقت‘
سینئر صحافی اور تجزیہ کار ویر سنگھوی نے ایک نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ فرقہ وارانہ واقعات کا مقصد مسلمانوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ وہ ہندوؤں کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔
اُن کے بقول حکمراں طبقے کی جانب سے ہندوؤں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے کی نام نہاد سیکولر حکومتوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے انہیں بہت سی مراعات دی تھیں اور اب جب کہ ہندوؤں کی حکومت قائم ہو گئی ہے تو ان مراعات کو واپس لینے کا وقت آ گیا ہے۔
ان کے خیال میں حکمراں طبقے کی جانب سے ہندوؤں کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ پہلے وہ نشانے پر تھے مگر اب انہوں نے اپنے ملک کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔
’بھارت اب گاندھی اور نہرو کا ملک نہیں رہا‘
سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب کے خیال میں اس وقت ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت اب گاندھی اور نہرو کا ملک نہیں رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کا خوف دکھا کر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج مسجدوں پر چڑھ کر زعفرانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ مسجدوں کے سامنے ہنگامے کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو گڑگاوں میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ لیکن عدلیہ خاموش ہے۔
حکومت کی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی تردید
حکومت کے ذمہ دار مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہے اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جاتا۔
بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہندو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق وزیر اعظم کا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی) اور سب کا وشواس (اعتماد)‘ ہے۔ حکومت جو بھی فلاحی اسکیمیں وضع کرتی ہے وہ سب کے لیے ہوتی ہیں کسی خاص مذہب کے لوگوں کے لیے نہیں۔