روسی فوجیوں نے مجھے ریپ کیا اور میرے شوہر کو مار دیا

کیف (ڈیلی اردو/بی بی سی) یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے مغرب میں تقریبا 70 کلومیڑ کے فاصلے پر ایک دیہی علاقے میں ہم نے 50 سالہ اینا سے بات کی۔ اُن کی شناخت محفوظ رکھنے کی خاطر اُن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اینا نے بتایا کہ سات مارچ کے دن وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھر پر تھیں جب ایک غیر ملکی فوجی اندر گھس آیا۔

’وہ بندوق کے زور پر مجھے ایک قریبی گھر لے گیا۔ اس نے مجھے حکم دیا کہ ’اپنے کپڑے اُتارو ورنہ میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ وہ مجھے دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر میں نے اس کا حکم نہیں مانا تو وہ مجھے مار دے گا۔ پھر اس نے مجھے ریپ کرنا شروع کر دیا۔‘

اینا کہتی ہیں کہ حملہ آور ایک دبلا پتلا نوجوان چیچن جنگجو تھا جو روس کی حمایت میں جنگ میں حصہ لے رہا تھا۔

’جب وہ مجھے ریپ کر رہا تھا تو چار اور فوجی اندر داخل ہوئے۔ مجھے لگا اب میں نہیں بچوں گی۔ لیکن وہ اُس کو وہاں سے لے گئے۔ اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا۔‘

اینا کا ماننا ہے کہ ان کو بچانے والے روسی فوجی تھے جو ایک اور یونٹ کا حصہ تھے۔

اس واقعے کے بعد اینا گھر پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے شوہر کو پیٹ میں گولی ماری گئی تھی۔ ’وہ مجھے بچانے میرے پیچھے بھاگا تھا لیکن اس پر گولیاں چلا دی گئیں۔‘

ان دونوں نے ہی ایک پڑوسی کے گھر میں پناہ لی۔ جنگ کی وجہ سے اینا اپنے زخمی شوہر کو فی الفور ہسپتال نہیں لے جا سکتی تھیں۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دو دن بعد اُن کے شوہر کی موت واقع ہو گئی۔

یہ کہانی سُناتے ہوئے اینا مسلسل رو رہی تھیں۔ انھوں نے ہمیں وہ مقام دکھایا جہاں پڑوسیوں کی مدد سے انھوں نے اپنے شوہر کو دفنایا تھا۔ قبر کے سرہانے لکڑی کا طویل القامت کراس لگا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اب مقامی ہسپتال سے اُن کو نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مدد مل رہی ہے۔

ان کو جن فوجیوں نے بچایا تھا وہ چند دن اُن کے گھر میں ہی رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فوجی بھی بندوق کے زور پر ان سے اپنے شوہر کی اشیا حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔

’جب وہ چلے گئے تو مجھے منشیات اور ویاگرا کی گولیاں ملیں۔ وہ اکثر نشے میں دھت رہتے تھے اور شراب پیتے تھے۔ زیادہ تر تو قاتل، ریپسٹ اور چور تھے۔ چند ہی ٹھیک تھے۔‘

اینا کے گھر سے کچھ ہی دور ایک اور ہیبت ناک کہانی سننے کو ملی۔ یہاں ایک عورت کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اسی جنگجو کا کام ہے جس نے بعد میں اینا کا بھی ریپ کیا۔

اس خاتون کی عمر تقریباً 40 سال تھی۔ اُن کے پڑوسیوں نے بتایا کہ اُن کو گھر سے زبردستی ساتھ والے خالی گھر کے بیڈروم میں لے جایا گیا جس کے مکین جنگ شروع ہوتے ہی گھر چھوڑ گئے تھے۔

یہ ایک منظم اور آراستہ کمرہ تھا جس کی دیواریں خوبصورت وال پیپر سے مزین تھیں اور بیڈ کا ہیڈ بورڈ سنہری رنگ کا تھا۔ لیکن اب یہ کمرہ ایک کرائم سین لگتا ہے جہاں ایک گھناؤنے جرم کی نشانیاں موجود ہیں۔ کمرے میں خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے ہوئے ہیں۔

ایک کونے میں ایک شیشے پر لپ سٹک سے ایک پیغام تحریر ہے جس پر لکھا ہے کہ ’گمنام افراد نے اذیت کا نشانہ بنایا اور روسی فوجیوں نے دفن کیا۔‘

ایک پڑوسی اسکانا نے ہمیں بتایا کہ یہ پیغام ان روسی فوجیوں نے لکھا ہے جنھوں نے اس خاتون کی لاش کو یہاں دیکھا اور اس کو دفن کیا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ اس خاتون کے ساتھ ریپ ہوا تھا اور اس کا گلہ کٹا ہوا تھا جس کے بعد خون بہنے سے اس کی موت ہو گئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ کمرے میں بہت زیادہ خون تھا۔

اس خاتون کو گھر کے باغیچے میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔

جس دن ہم یہاں پہنچے اسی دن پولیس نے تفتیش کے لیے اس خاتون کی لاش قبر سے نکالی تھی۔ لاش برہنہ تھی اور خاتون کی گردن پر ایک گہرے لمبے زخم سے معلوم ہوا تھا کہ جیسے کوئی تیز دھار آلہ پھیرا گیا ہو۔

کیئو کے علاقے کے پولیس چیف آندری نیبیتوو نے بی بی سی کو ایک اور کیس کے بارے میں بتایا جو 50 کلومیٹر دور ایک اور گاؤں میں پیش آیا تھا۔

30 سالہ میاں بیوی اور ایک کم عمر بچے کا خاندان گاؤں کے ایک کونے پر واقع گھر میں رہتے تھے۔

آندری نیبیتوو نے بتایا کہ نو مارچ کو روسی فوج کے بہت سے اہلکار گھر میں گھس آئے۔ شوہر نے بیوی اور بچے کو بچانے کی کوشش کی تو اُس کو صحن میں گولی مار دی گئی۔

’اس کے بعد دو فوجیوں نے بیوی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ اس کو چھوڑ دیتے تھے اور پھر واپس آ جاتے تھے۔ وہ تین بار اس سے جنسی زیادتی کرنے کے لیے واپس آئے۔ انھوں نے اس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مزاحمت کی تو اس کے بیٹے کو نقصان پہنچائیں گے۔ اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے اس نے مزاحمت نہیں کی۔‘

جب فوجی اس علاقے سے روانہ ہوئے تو انھوں نے گھر کو جلا دیا اور خاندان کے پالتو کتوں کو گولی مار دی۔

یہ خاتون اپنے بچے کے ساتھ بھاگیں اور پولیس سے رابطہ کیا۔ آندری نیبیتوو کے مطابق ان کی ٹیم نے اس خاتون سے ملاقات کی اور ان کا بیان ریکارڈ کیا۔

پولیس اب اس گھر سے شواہد اکھٹے کر رہی ہے جہاں اب صرف ایک کھنڈر ہے۔ جھلسے ہوئے اس کھنڈر میں کبھی ایک پرامن اور عام سی زندگی کے چند ہی آثار باقی بچے ہیں۔ ہم نے ایک بچے کی سائیکل، ایک کھلونا گھوڑا اور ایک آدمی کا فر سے بھرا سرمائی جوتا دیکھا۔

اس گھر کے سربراہ کو باغیچے میں دفنایا گیا۔ پولیس نے ان کی لاش بھی قبضے میں لے لی ہے۔ پولیس کا ارادہ ہے کہ وہ اس کیس کو بین الاقوامی عدالتوں میں لے کر جائے۔

لڈمیلا ڈینیسووا یوکرین میں انسانی حقوق کی محتسب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کئی اور کیسز کا بھی احاطہ کر رہی ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ یوکرین کے شہر بوچا پر قبضے کے دوران ایک گھر میں 14 سے 24 سال کی 25 خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے نو خواتین اب حاملہ ہیں۔

’روسی فوجیوں نے ان سے کہا کہ وہ اس وقت تک اُن کا ریپ کریں گے کہ آئندہ وہ کبھی کسی مرد سے جنسی تعلق قائم نہیں کرنا چاہیں گی اور اس طرح وہ یوکرینی بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوں گی۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کو ہیلپ لائن پر متعدد فون کالز آ رہی ہیں اور ٹیلی گرام پر بھی پیغامات وصول ہو رہے ہیں۔

لڈمیلا ڈینیسووا نے ایک ایسی ہی کال کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ ایک 25 سالہ خاتون نے بتایا کہ اس کی 16 سالہ بہن کو گلی میں اس کے سامنے ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ ’اس نے بتایا کہ اس کی بہن کا ریپ کرتے ہوئے وہ چیخ رہے تھے کہ ہر نازی جسم فروش کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔‘

ہم نے لڈمیلا سے سوال کیا کہ اب تک روسی فوجیوں کے جنسی جرائم کا تخمینہ لگایا گیا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’اس وقت ایسا کرنا ناممکن ہے کیوں کہ ہر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اکثریت نفسیاتی مدد کے لیے رابطہ کرتے ہیں اس لیے ہم یہ ریکارڈ اکھٹا نہیں کر سکتے جب تک وہ خود بیان نہیں دیتے۔‘

انھوں نے کہا کہ یوکرین چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ ایک خصوصی ٹریبونل قائم کرے جو روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے الزامات پر مقدمہ چلائے، جس میں جنسی جرائم بھی شامل ہوں۔

’میں پوتن سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے؟‘ یہ سوال اینا نے کیا جن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

’مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ ہم پتھر کے دور میں تو نہیں رہتے پھر وہ بات چیت کیوں نہیں کر سکتا؟ وہ قبضہ کیوں کر رہا ہے؟ مار کیوں رہا ہے؟‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں