تہران + کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان پر طالبان کی حکومت کے بعد سے ہزاروں افغان شہری دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد ایران بھی پہنچی ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض ویڈیوز میں مبینہ طور پر افغان مہاجرین کے ساتھ ایران میں ہونے والے ناروا سلوک کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اتوار کو افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں ایرانی سفیر بہادر امینیان سے ملاقات کی اور زور دیا کہ ایران کی سرحد پر اور ایران کے اندر مقیم افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کیا جائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی سفیر نے الزام عائد کیا کہ اس کے پیچھے ایک خاص گروپ کارفرما ہے جس کا مقصد نفرت پھیلانا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے۔
اس سے پہلے ایران میں افغان مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک کی ایک ویڈیوسوشل میڈیا پروائرل ہوئی جس میں دکھایا گیا کہ ایران میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ نا روا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد سے افغانستان کے اندر کافی اشتعال پیدا ہوا ہے۔
تہران کے سرکاری خبر رساں ادارے ‘تسنیم’ کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے محدود وسائل کے باعث افغان پناہ گزینوں کی ایران میں آمد مسلسل جاری نہیں رہ سکتی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے پیر کے روز کہا کہ “افغانستان کے حکمرانوں کو، جو اس وقت انچارج ہیں اپنی ذمے داریاں مکمل طور پر ادا کرنی چاہئیں۔ ایران میں پناہ گزینوں کی یہ لہر جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ ذمے داری صرف ایک ہمسایہ ملک پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہم اچھے میزبان بننے کی جتنی بھی کوشش کریں، ہماری گنجائش محدود ہے۔”
انہوں نے باور کروایا کہ ایران چار عشرے سے زیادہ عرصے سے افغان پناہ گزینوں کی کھلے دل سے میزبانی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں افغان شہریوں کو وہی مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں جو ایرانیوں کو حاصل ہیں۔
ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں ایک غیر ملکی کی چاقو سے ہلاکت خیز حملہ کرنے پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خبردار کیا کہ غیر ملکی آبادکار دونوں ملکوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لیے نسلی اور مذہبی مسائل کو ہوا دے رہے ہیں۔
افغان تارکینِ وطن کے ساتھ ناروا سلوک کی اطلاعات کے بعد پیر کے روز کابل میں خواتین سمیت متعدد شہریوں نے ایرانی سفارت خانے کے باہر احتجاج کیا۔
اسی دوران سوشل میڈیا کے صارفین مسلسل، ایران میں افغان مہاجروں کے خلاف تشدد کی ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں۔
ایران امریکہ بالواسطہ مذاکرات میں تعطل
کچھ دیگر خبروں کے مطابق ایران کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ایرانی قانون سازوں نے2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے شرائط پیش کر دی ہیں جن میں یہ ضمانتیں بھی شامل ہیں کہ کانگریس اس کی منظوری دے کہ امریکہ اس معاہدے سے الگ نہیں ہوگا۔
پیر کے روز ایران نے کہا ہے کہ 2015 کا ایٹمی معاہدہ “زندہ” ہے مگر “ایمر جنسی روم”میں ہے۔
ایران اور امریکہ ویانا میں اس بارے میں بالواسطہ مذاکرات کرتے رہے ہیں کہ 2015میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ بحال کیا جائے۔
فی الحال یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں اور ایران اور امریکہ اس کے لیے ایک دوسرے کو مؤردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ وہ باقی ماندہ امور طے کرنے کے لیے کسی ضروری سیاسی فیصلے میں ناکام رہے ہیں۔لیکن اب ایران کی جانب سے شرائط عائد کر نے سے کوئی حتمی سمجھوتہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ان شرائط پر ایران کے 290 قانون سازوں میں سے 250 نے دستخط کیے ہیں؛جب کہ اتوار کے روز ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبدالیہان نے کہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو چاہئیے کہ وہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر ایران پر سے کچھ
پابندیاں ہٹانے کا ایگزیکیٹو آرڈر جاری کریں
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے کہا ہے کہ شکست و ریخت کا شکار یہ معاہدہ بحال کیا جا سکتا ہے مگر فریق نہیں جانتے کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔عالمی سطح پر یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ ہو سکتا ہے ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہو اور جب چاہے نیوکلیر ہتھیار حاصل کر لے۔
ایران کہہ چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔