کولمبو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) سری لنکا نے شدید معاشی بحران اور غیر ملکی قرضوں کا حجم 51 ارب ڈالر ہونے کے بعد ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد حکومت نے غذائی اشیا اور ایندھن کی درآمدی ادائیگیاں ممکن بنانے کے لیے بیرونِ ملک مقیم اپنے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ترسیلاتِ زر بھیجنے کی اپیل کی ہے۔
بھارت کے جنوب میں بحیرۂ ہند پر واقع سری لنکا کو اس وقت 1948 میں اپنی آزادی کے بعد سے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ سری لنکا پر 51 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ہے۔ اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے اور گھنٹوں لوڈ شیڈنگ معمول بن چکی ہے۔
اس معاشی بحران کے باعث حکومت کو عوامی احتجاج اور غم و غصے کا بھی سامنا ہے۔ سری لنکا کے عوام مظاہروں میں حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ سری لنکا آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے مذاکرات بھی کرنے جا رہا ہے۔
سری لنکا کے مرکزی بینک کے گورنر نندالال ویرسنگھے کا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم سری لنکا کے شہری اس کڑے وقت میں اپنے ملک کی مدد کے لیے زرِ مبادلہ عطیات دیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
ان کی یہ اپیل بدھ کو سری لنکا حکومت کے دیوالیہ ہونے کے اعلان کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔ گزشتہ روز حکومت نے اعلان کیا تھا کہ پٹرول، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت پوری کرنے کے لیے تمام غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں معطل کی جارہی ہیں۔
ویرسنگھے کے مطابق انہوں نے عطیات کے لیے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں بینک اکاؤنٹس کھول لیے ہیں اور بیرونِ ملک مقیم سری لنکا کے شہریوں سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی دی گئی رقوم وہاں استعمال ہوگی جہاں ان کی اشد ضرورت ہوگی۔
ویرسنگھے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مرکزی بینک صرف ضروری اشیا بشمول خوراک، ایندھن اور ادویات کی درآمد کے لیے ترسیلات کے استعمال کو یقینی بنائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ منگل کو دیوالیہ ہونے کا اعلان سری لنکا کو 20 کروڑ ڈالر سود کی ادائیگی سے بچا لے گا جسے ادا کرنے کا آخری دن پیر کو تھا۔ اب یہ رقم اشیائے ضروریہ کی خریداری میں استعمال ہوگی۔
بیرونِ ملک مقیم سری لنکا کے شہری ترسیلاتِ زر کے لیے اپنی حکومت کی اپیل کا خیر مقدم کر رہے ہیں لیکن بعض افراد حکومت کی ساکھ پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔
آسٹریلیا میں مقیم ا سری لنکا کے ایک ڈاکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر’ اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ہمیں مدد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن ہم حکومت پر بھروسا نہیں کر سکتے۔
کینیڈا میں مقیم ایک سری لنکن انجینئر کا کہنا تھا کہ انہیں اعتماد نہیں کہ ان کی رقم ضرورت کے لیے استعمال ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس رقم کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو سونامی فنڈز کے ساتھ ہوا تھا۔ انہوں ںے سری لنکا کو 2004 کے سونامی کے بعد امداد میں ملنے والے لاکھوں ڈالر کے عطیات کا حوالہ دیا بھی دیا۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں سری لنکا میں 31 ہزار انسانی جانیں چلی گئی تھیں۔
سونامی سے متاثرہ افراد کے لیے ملنے والی زیادہ تر غیر ملکی امداد مبینہ طور پر سیاست دانوں کی جیبوں میں چلی گئی تھی جن میں ملک کے موجودہ وزیرِ اعظم مہنداراجا پاکسے بھی شامل تھے جنہیں اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں آنے والے سونامی فنڈ واپس کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
سری لنکا دیوالیہ کیوں ہوا؟
سری لنکا کی معیشت کا سیاحت پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ کرونا وائرس کے باعث سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہونے کی وجہ سے گزشتہ دو برس کے دوران سری لنکا کی معیشت کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔لیکن معاشی ماہرین کے نزدیک بیرونی قرضوں اور ٹیکس سے متعلق حکومت کے اقدامات سری لنکا کو درپیش تاریخ کے سنگین ترین بحران کے بنیادی اسباب میں شامل ہیں۔
سری لنکا 2007 سے مسلسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے آرہا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس بوجھ میں اضافہ ہوا۔ مختلف ادوار میں لیا گیا یہ قرض51 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ اس قرض میں سے سب زیادہ یعنی36.4 فی صد حصہ حکومت کے بین الاقوامی بانڈ سے حاصل کردہ قرضوں پر مشتمل ہے۔
ان غیر ملکی قرضوں میں 14 فی صد سے زائد ایشیائی ترقیاتی بینک سے لیا گیا ہےجو ساڑھے چار ارب سے زائد ہے۔ ان میں جاپان اور چین دونوں کے الگ الگ ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد بھی واجب الادا ہیں۔اس کے علاوہ بھارت اور عالمی بینک، اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی ہیں۔
سری لنکا کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہ میں حکومت کی اقتصادی پالیسیاں بھی شامل ہیں جن کے باعث کرونا وبا سے قبل ہی ملکی معیشت زوال کا شکار ہو گئی تھی۔
گزشتہ ماہ امریکی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز آف سری لنکا کے ڈائریکٹر دشانی ویراکون کا کہنا تھا کہ 2007 کے بعد سے ہر حکومت قرضوں کی ادائیگی کے لیے کسی سوچ بچار کے بغیر بانڈز جاری کرتی رہی ہے۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے برآمدات سے آمدنی بڑھانے کے بجائے قرضوں پر انحصار کیا گیا۔
ان کے مطابق ایک جانب حکومت غیر ملکی قرضوں اور درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر استعمال کرتی رہی تو دوسری جانب مرکزی بینک نے ملکی کرنسی کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے زرمبادلہ کا استعمال کیا۔
ویراکون کے مطابق ان اقدامات کے نتیجے میں غذا اور دیگر اشیائے ضروریہ کو بیرونی ملکوں سے منگوانے کے لیے زرِ مبادلہ ہی نہیں بچا اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوا۔
پھر سال 2019 میں سری لنکا میں صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر گوتابایا راجا پاکسے نے بڑے پیمانے پر ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا۔ ان اقدامات کے تحت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو تقریباً نصف کردیا گیا۔
موجودہ حکومت کے ٹیکس کٹوتی سے متعلق فیصلوں کے ناقدین کا کہنا تھا کہ بیرونی ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے باوجود ٹیکس میں کمی کرنے سے ملکی آمدنی متاثر ہوئی۔ اس کے علاوہ 2019 میں حکومت نے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا وہ بھی اس فیصلے کی وجہ سے قابلِ عمل نہ رہا۔
دوسری جانب گزشتہ دو برسوں کے دوران سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 70 فی صد سے زائد کمی آئی۔ اس وقت ملک پاس 2.36 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں جب کہ 2022 میں سری لنکا نے چار ارب سے زائد قرضے کی رقم ادا کرنی ہے۔
غیر ملکی قرضوں اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے مطلوب زرمبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ تیل کی کمی کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی بند ہو چکی ہے۔
حکومت کے پاس ملکی قرضوں اور اشیائے ضروریہ کی درآمدات کی ادائیگیاں کرنے کے لیے مطلوبہ زرِ مبادلہ نہیں ہے۔ انہی سنگین معاشی حالات کے باعث بالآخر سری لنکا نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔