نئی دہلی (ڈیلی اردو) بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد یا رام مندر تنازع کو ثالثی سے حل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک تین رکنی پینل تشکیل دے دیا جو 8 ہفتے میں مصالحت کا عمل مکمل کرے گا۔
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رانجن گوگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں بابری مسجد تنازع کے حل کے لیے سابق جج جسٹس (ر) خلیف اللہ کی سربراہی میں تین رکنی ثالثی پینل بنا دیا جو ایک ہفتے میں اپنے کام کا آغاز کرے گا۔
ثالثی پینل کے دیگر دو ارکان میں شری شری روی شنکر اور سینئر وکیل شری رام پانچو شامل ہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ ثالثی پینل بابری مسجد یا رام مندر کا تنازع 8 ہفتے میں حل کرے اور ثالثی کا عمل اترپردیش کے شہر فیض آباد میں ہوگا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ثالثی کا عمل خفیہ طریقے سے ہوگا جس کی میڈیا کو رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہوگی اور تمام معاملے کی نگرانی اعلیٰ عدالت خود کرے گی۔
ثالثی پینل کے چیئرمین جسٹس (ر) خلیف اللہ کا کہنا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
پہلے مغل بادشادہ بابر کے حکم پر 1528 میں بابری مسجد تعمیر کی گئی 1528 میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہوئے اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔جسے انتہاپسند ہندوؤں نے 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا تھا۔
ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو 1992 میں شہید کیے جانے کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے، جس میں تقریباً 2 ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
انتہا پسند ہندوؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس مقام پر ہندو دیوتا ‘رام’ کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
تقسیم ہندوستان کے بعد حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
ان کا مؤقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں انتہا پسند ہندوؤں کے بڑے پیمانے پر ووٹ ملے تھے۔