ڈھاکا (ڈیلی اردو/وی او اے) بنگلہ دیش میں روہنگیاپناہ گزینوں کے لیے سب سے بڑے نجی، ‘کایاپوری’ اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد شوفی کے دفتر میں پولیس نے اس وقت چھاپہ مارا جب وہ نویں جماعت کے امتحانات کے سوالات پرنٹ کر رہے تھے۔ 32 سالہ شوفی نے وی او اے کو بتایا کہ پولیس نے ان کا کمپیوٹر اور پرنٹر ضبط کر لیا اورپھر صبح ہوتے ہی بینچ اور وائٹ بورڈز وغیرہ کو بھی قبضے میں لے کر اسکول کے دروازے کو تالا لگا دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے پوچھا کہ کیا ہمارے پاس اسکول کے لیے کوئی سرکاری اجازت نامہ ہے؟ ہمارےپاس تحریری شکل میں کچھ نہیں تھا۔ہمارے نمائندے کیمپ انچارج محب اللہ نے حکومت کے مقررہ اہلکار سے اسکول کھولنے کی زبانی اجازت لی ہوئی تھی۔ اور اب اچانک بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے بند کردیا جائے۔
گذشتہ برس ہلاک کیے گئے ایک روہنگیا رہنما نے دو ہزار انیس میں یہ سیکنڈری اسکول قائم کیا تھا ۔ یہ قریباً تیس ایسے اداروں میں سے ایک تھا جسے پولیس نے بند کردیا ہے یا پولیس کی جانب سے دسمبر میں اسکول بندکرنے کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے مالکان نے خود بند کردیے ہیں۔
بنگلہ دیش کےکوتوپالونگ روہنگیاپناہ گزین کیمپ میں چوبیس مارچ کو کایا پوری اسکول کے بند ہونے کے بعد سے اس طرح کے دیگر اسکول بھی اب نہیں چل رہے۔
بانس اور ترپالوں سے بنا یہ عارضی ڈھانچہ، ، جس کے اندر کلاس روم کی کم سے کم سہولت تھی، کیمپوں کے ہزاروں روہنگیا پناگزینوں کے بچوں کے لیے زندگی کی علامت تھے۔ حکومت پناہ گزینوں کواسکول کھولنے کی قانونی اجازت نہیں دیتی لیکن دو ہزار بیس میں انھیں کام کرنے کی اجازت پر اتفاق کیا تھا اور ضرورت پڑنے پر امداد دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔
تاہم روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے انسانی امداد کے ذمہ دار بنگلہ دیش کے دفتر برائے ریفوجی ریلیف اینڈ ریپیٹریشن کمیشنر نے تیرہ دسمبر کو کہا کہ روہنگیا کیمپوں میں ایسے تمام نجی اسکولوں کو بند کردینا چاہیے کیونکہ وہ غیر قانونی ہیں اوران کے پاس اسے چلانے کا سرکاری اجازت نامہ نہیں ہے۔
متعدد ذرائع نے وی او اے کو بتایا کہ حکم ملنے کے بعد مسلح پولیس نے چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں اور بینچ، وائٹ بورڈز اور کمپیوٹر سمیت اسکول کے تمام اثاثوں کو ضبط کرنا شروع کردیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکام نے اسکولوں کی بندش کی خلاف ورزی پر روہنگیا پناہ گزینوں کی شناختی دستاویزات ضبط کرنے اور انھیں زبردستی دور دراز سیلاب زدہ جزیرے پر بھیج دینے کی دھمکی دی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے بل وان ایسویلڈ نے کہا کہ پہلے تو حکومت نے روہنگیا بچوں کو بامعنی تعلیم کے حصول سے روکا، پھر خود ان کے اپنے طور پر قائم کردہ اسکول بند کردیے اور اب وہ اساتذہ اور طلبا کو جیل نما جزیرے میں بھیجنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
سب سے بڑے اسکول کی بندش
کایوپوری کے ہیڈ ماسٹر شوفی نے کہا کہ انھیں پہلے ہی چھاپے کا خدشہ تھا کیونکہ اسی طرح کے دو اسکول مسلح پولیس بند کرچکی تھی۔ آٹھویں جماعت کی طالبہ رابعہ اختر نے کہا کہ اسکول کی بندش سے ان کے انجنیئر بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے۔
اس نے وی او کو بتایا کہ دو ہزار سترہ میں میانمار سے فرار ہونے کے بعد ڈیڑھ سال تک وہ بے کار رہی، لیکن اسکول کھلنے سے اسے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملا تھا۔ اب جبکہ یہ بند ہوگیا ہے، وہ پھر سے بے کار ہوگئی ہے وہ کہتی ہے کہ وہ پریشان ہے کیونکہ شائد اس کے خاندان والے اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور وہ اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتی۔
غیر قانونی ادارے
حکام نے اپنے ان اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہاہےکہ انھوں نے صرف غیر قانونی اداروں کو کام کرنے سے روکا ہے۔ وی او اے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایڈیشنل ریفوجی، ریلیف اینڈ ریپٹریشن کمیشنر محمد شمس الدوحہ نے کہا کہ کیا آپ اپنی حدود میں ایک غیر قانونی ادارے کو طویل عرصہ تک کام کرنے دیں گے۔
دوحہ نے کہا کہ کایاپوری اسکول کے پاس اجازت نامہ نہیں تھا اور اس کے کچھ اساتذہ سرکاری بنگلہ ز بان پڑھارہے تھے جو حکومت کی جانب سے ممنوع ہے کیونکہ راس طرح یہ امکان موجود ہے کہ کہیں وہنگیا مستقل بنیاد پر بنگلہ دیش میں ضم نہ ہوجائیں ۔انھوں نے کہا کہ یونیسف روہنگیا بچوں کو پڑھانے میں پیش پیش ہے اور کیمپوں کے اند سیکھنے کے ہزاروں مراکز اور اسکول چلارہا ہے۔
بنگلہ دیش میں یونیسف کے دفتر نے وی او اے کو ایک ای میل میں کہا کہ ساڑھے تین لاکھ روہنگیا پناہ گزین بچے کاکسس بازار کے روہنگیا کیمپوں میں قائم بتیس ہزار تعلیمی مراکز میں زیر تعلیم ہیں۔ جن میں سے اٹھائیس سو اسکولوں کویو نیسف کی مدد حاصل ہے۔
ان اسکولوں کی بندش کے بارے میں فوری طور پر بنگلہ دیش کا مؤقف معلوم نہیں ہوسکا۔