نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کی ریاست اترپردیش میں پولیس نے مبینہ طور پر پاکستانی ملی نغمہ سننے کے ایک معاملے میں دو نو عمر لڑکوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ان نوجوانوں کو پوچھ گچھ کے لیے رات بھر حراست میں بھی رکھا گیا۔ پولیس نے یہ اقدام ایک پڑوسی کے ذریعے شکایت درج کرانے کے بعد اٹھایا ہے۔ اس معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
یہ واقعہ اتر پردیش کے بریلی ضلع کےسنگھئی موراون گاؤں میں پیش آیا۔
پولیس میں درج کرائی گئی رپورٹ کے مطابق گاؤں میں ایک مسلمان خاندان کی کریانے کی دوکان میں 16 اور سترہ سال کے دو بھائی موبائل پر مبینہ طور پر ایک پاکستانی ترانہ سن رہے تھے۔
रमज़ान का पवित्र महीना चल रहा है और बरेली में मुस्तकीम व नहीम पाकिस्तान ज़िंदाबाद के गाने बजाये जा रहे हैं !
इस देश में रह रहे हो..इस देश का खा रहे हो ..पी रहे हो..संशाधनों का उपयोग कर रहे हो और फिर भी पाकिस्तान ज़िंदाबादतुम्हारे जैसे ग़द्दार और नमकहराम पूरी दुनियाँ में नहीं???? pic.twitter.com/KUTvLsvThG
— Major Surendra Poonia ( Modi Ka Parivar ) (@MajorPoonia) April 15, 2022
ایک مقامی باشندے آشیش نے اس پر اعتراض کیا۔ جس پر مبینہ طور پر ان بھائیوں نے آشیش کو برا بھلا کہا۔
ترانہ بند نہ کرنے پر آشیش کے مطابق انھوں نے خاموشی سے مبینہ ترانہ ریکارڈ کر لیا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ آشیش نے پولیس میں رپورٹ بھی درج کرائی ہے۔ اس ویڈیو میں دونوں بھائی دکان میں کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے اور پس منظر میں پاکستان کی چائلڈ آرٹسٹ آیت عارف کی آواز میں کوئی ترانہ بج رہا ہے جس میں آخری لائن ’پاکستان زندہ باد‘ صاف سنائی دیتی ہے۔
بریلی کے دیہی علاقے کے سینیئر پولیس افسر راج کمار اگروال نے میڈیا کو بتایا کہ اس معاملے میں دو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ’پولیس اس ویڈیو کی صداقت کی فورینزک جانچ کر رہی ہے۔ جانچ کے بعد ہی کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔‘
بھوتا تھانہ کے انچارج راجیش کمار نے بی بی سی بات کرتے ہوئے مقدمہ درج کرنے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس معاملے کی ابھی تفتیش کی جا رہی ہے۔
بریلی ضلع کے سینئر سپرنٹنڈینٹ آف پولیس روہت سنگھ سجوان کے حوالے سے سرکردہ اخبارٹائمز آف انڈیا نے خبر دی ہے کہ لڑکوں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس طرح کے معاملوں میں نوٹس بھبیجا جاتا ہے کیونکہ جو ویڈیو سامنے آئی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں یہ بغیر جانچ کے واضح نہیں ہوتا۔
اس معاملے کی تفتیش کی نگرانی اور رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک اعلی پولیس افسر کو مقرر کیا گیا ہے۔