بھارت: مدھیہ پردیش میں فرقہ وارانہ تصادم، مسلمانوں کے مکانات و دکانیں مسمار

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے 72 سالہ شیخ محمد رفیق یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جن افراد نے ان کا گھر مسمار کیا وہ علی الصبح ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔

مشروب فروخت کرنے والے محمد رفیق اور ان کے بیٹوں کے لیے وہ ایک طویل رات تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ماہ رمضان میں ہمارا کاروبار عموماً شام کے اوقات میں زیادہ چلتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ جب سوموار کی صبح پولیس ان کے گھر پہنچی تو وہ سب سو رہے تھے ’لیکن جب انھوں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنی تو انھیں یہ احساس ہوا کہ کوئی ان کے دروازہ توڑ رہا ہے۔‘

محمد رفیق بتاتے ہیں کہ خارگون شہر کی ایک چھوٹی مسلم آبادی میں واقع ان کے گھر کو سنیکڑوں اہلکاروں نے بلڈروز کے ساتھ گھیر رکھا تھا، اور وہ ان تمام افراد کو پیچھے ہٹا رہے تھے تو انھیں روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے اپنا کام ختم کیا تب تک وہاں صرف ملبے کا ڈھیر بچا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم سب اتنے خوفزدہ تھے کہ ہم ایک لفظ بھی نہ کہہ پائے اور خاموشی کے کھڑے سب دیکھتے رہے اور انھوں نے سب کچھ ختم کر دیا۔‘

انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں دس اپریل کو ہندو تہوار رام نوامی پر پھوٹنے والے فسادات کے بعد وہاں متعدد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں مسمار کیا گیا ہے۔

انڈیا کے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متعدد پریشان کن تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس میں بڑے بڑے پیلے رنگ کے بلڈوزر گھروں کو مسمار کر رہے ہیں اور ان گھروں کے مکین بے بسی سے نم آنکھوں سے یہ سب کچھ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔

ان واقعات اور تصاویر نے انڈیا میں ایک غم و غصے کی بحث کو جنم دیا ہے اور ناقدین اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی، جو مدھیہ پردیش میں بھی برسراقتدار ہے، کی طرف سے انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

تاہم ریاستی حکومت نے اس تمام تر معاملے کا الزام مسلمان برادری پر عائد کیا ہے۔ ریاست کے وزیر داخلہ ناروتام مشرا نے انڈیا کے مقامی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ‘اگر مسلمان ایسے حملے کریں گے تو انھیں بدلے میں انصاف کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔’

ریاست کی جانب سے جس طرح سے ‘کھلے عام’ یہ اقدامات کیے گئے ہیں اس نے سنگین تشویش بھی پیدا کی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ چند کے خیال میں یہ مسلمانوں کواجتماعی سزا دینے کی کوشش ہے۔

ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں مقیم سنیئر وکیل ارشد وارسی کا کہنا تھا کہ ‘آپ ایک خاص برادری کو غیر متناسب طریقے سے بنا کسی ضابطے و قانون کے سزا دے رہے ہیں، یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان تمام تر کارروائیوں سے ایک پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر آپ کسی بھی طرح سے ہمیں سوال یا چیلنج کرنے کی جرات کریں گے تو ہم آپ سے نمٹ لے گی، آپ کے گھروں، کاروبار اور آپ کو ختم کر دیں گے۔’

ریاست میں پرتشدد واقعات کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب دس اپریل کو ہندو تہوار کے دوران ہندو پوجاریوں کے بڑے جلوسوں نے مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے اشتعال انگیز موسیقی لگائی تھی جس میں اقلیت برادری کے خلاف تشدد کرنے پر اکسایا گیا تھا۔

اس موقع پر مختلف علاقوں سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔

بہت سے مسلمانوں نے پولیس پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ہندؤ برادری کے پرتشدد ہجوم کی حمایت کی یا انھیں توڑ پھوڑ کرنے کی اجازت دی۔ اتوار کے روز سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی متعدد ویڈیوز جن میں مشتعل ہندو افراد تلواریں لہرتے توڑ پھوڑ اور مساجد کی بے حرمتی کر رہے ہیں نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

اٹھائیس سالہ شہباز خان نے الزام عائد کیا ہے کہ مشتعل ہندوؤں نے سندھاوا شہر میں ایک مسجد کے مینار توڑ دیے اور مسلمانوں پر پتھراؤ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لیکن ‘اصل قیامت’ تو اگلے دن ٹوٹی جب حکام ‘نہ جانے کہاں سے آئے’ اور انھوں نے ان کا گھر مسمار کر دیا۔

اس مسجد جہاں وہ اب پناہ لیے ہوئے ہیں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میری بیوی اور بہن نے روتے ہوئے پولیس کی منت سماجت کی کہ ہمیں اپنے استعمال کی چیزیں گھر سے نکال لینے دیں لیکن انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا، اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہر مرتبہ جب ہم پولیس تھانے جاتے ہیں تو وہ ہمیں وہاں سے دھتکار کے بھگا دیتے ہیں۔

ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ گھروں کو مسمار کرنے کی یہ کارروایاں ان افراد کے لیے سزا ہیں جنھوں نے مبینہ طور پر پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ میں حصہ لیا۔

صوبائی وزیر داخلہ مشرا نے حال ہی میں کہا تھا کہ ‘ جن گھروں سے پتھر پھینکے گئے تھے اب ان گھروں کو خود پتھروں کا ڈھیر بنا دیا جائے گا۔’

ریاستی حکومت نے ان اقدامات کو تجاوزات قرار دے کر قانونی جواز پیش کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تجاوزات اور ان افراد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جنھوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔

خارگون کی ضلعی کلیلکٹر انوگراہا پی کا کہنا ہے کہ ’یہ کارروائی دونوں کے خلاف ہو رہی ہے۔‘

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہر ایک مجرم کی تلاش وقت طلب مرحلہ ہے لہذا ہم نے ان تمامم علاقوں کا جائزہ لیا جہاں فسادات ہوئے تھے اور ان تمام تجاوزات کو گرا دیا تاکہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو ایک سبق سکھایا جا سکے۔’

لیکن محمد رفیق کہتے ہیں کہ ان کے محلے میں کوئی ہنگامہ آرائی یا پرتشدد واقعات نہیں ہوئے تھے۔ ‘میرے پاس اپنے گھر کے تمام قانونی کاغذات بھی موجود ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ یہ غیر قانونی نہیں ہے۔ مگر پولیس اچانک آئی اور انھوں نے میری بات سننے سے انکار کیا اور مجھ سے میرا گھر چھین لیا۔’

ماہرین بھی اس منطق پر سوال اٹھاتے ہیں کہ کسی کو مبینہ جرم کے لیے سزا دینے کے لیے دوسرے جرم کے قانون کا سہارا لینا کہاں کا انصاف ہے۔

سیاسی تجزیہ کار راہل ورما کا کہنا ہے کہ ‘قانون کو ایک سہارے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، یہ گھر مذہبی جلوسوں سے پہلے بھی غیر قانونی تھے۔ آپ خود سے کوئی بھی ردعمل نہیں دے سکتے کیونکہ وہ قانونی چارہ جوئی کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ریاست انتقامی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔‘

وکیل ارشد وارسی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریاست کے پاس تجاوزات کو گرانے کا اختیار ہے، لیکن اس کا ایک طریقہ کار ہے، آپ مالک کو ایک قانونی نوٹس دیتے ہیں، اس پر انھیں جواب کا موقع فراہم کرتے ہیں اور عدالت میں درخواست دیتے ہیں۔ تجاوزات کو گرانے سے پہلے یہ تمام کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے قانونی نوٹس بھجوائے تھے لیکن بی بی سی سے بات کرنے والے تین خاندانوں نے پولیس کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔

سنیئر وکیل ارشد وارسی کہتے ہیں کہ ریاستی قانون کے تحت دیگر شقیں بھی ہیں جن کے تحت آپ ملزم کو جرمانہ ادا کرنے کا کہہ سکتے ہیں اور حکام گھروں کو مسمار کرنے سے قبل اس کا استعمال کر سکتے تھے۔

’گھروں یا جائیداد کو مسمار کرنا آخری حل سمجھا جاتا ہے۔‘

لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اس طرح سے انصاف فراہم کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس سے قبل بھی ماضی میں انھوں نے ریپ کے ملزموں، گینگسٹر اور دیگر مجرمان کے گھروں کو مسمار کیا تھا۔

تجزیہ کار راہل ورما کہتے ہیں کہ ‘ہم یہاں بھی ویسی ہی سیاست دیکھ رہے ہیں جیسا اتر پردیش میں ہوا، جسے نام نہاد یو پی ماڈل کہا جاتا ہے۔ اور اب اس کی چھاپ دیگر ریاستوں میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کا مقصد بی جے پی کے مرکزی، ہندوتوا حمایتی ووٹرز کو خوش کرنا ہے۔’

زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے ہندو قومیت پسند یوگی ادتیہ ناتھ جو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں نے خود کی ایک سخت گیر کے طور شناخت پیدا کی ہے جو اپنے ریاست میں جرم ختم کرنے کا مشن لیے ہیں۔ ان کی حکومت مبینہ جرائم پیشہ افراد کے گھروں کو مسمار کرتی رہتی ہے اس لیے انھیں ‘بلڈوزر بابا’ یا بلڈوزر پوجاری’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس کے پیش نظر مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کو بھی ان کے حمایتی ‘بلڈوزر چاچا’ یا ‘بلڈوزر ماما’ کے نام سے پکار رہے ہیں۔

دونوں ریاستوں نے ایسی پالیسیاں متعارف کروائی ہیں جنھیں مسلم مخالف قرار دیا جا رہا ہے ان میں بین المذاہب محبت یا شادی کے خلاف قانون سازی اور وہ متنازع قانون شامل ہے جس میں وہ احتجاج کرنے والوں سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں سے ہرجانہ لے سکتی ہے۔

ریاست اترپردیش میں اس قانون کو شہریت کے متنازعے قانون کے مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔

جب گذشتہ برس اس قانون کو مدھیہ پردیش میں منظور کیا گیا تھا اس وقت وزیر اعلیٰ مشرا نے کہا تھا کہ اسے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے جو احتجاج، ہڑتال یا ہنگاموں کے دوران کسی سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے اور اگر ضرورت پڑی تو ملزم کی جائیداد کو قرق کر کے ہرجانے کی رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔’

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مبینہ جرائم کی سزا کے لیے آپ کسی کے گھر کو مسمار نہیں کر سکتے، اس کی کسی بھی قانون کے تحت کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

ارشد وارسی کہتے ہیں کہ ‘آپ ایسا نہیں کر سکتے۔‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘کسی بھی قانون سے انکار کرتے ہوئے حکام خود قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں اور عدالتوں کو بے وقت کر رہے ہیں۔ اور ریاست میں مسلمان برادری کو ریاستی حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ ایسا ہی ہے کہ حکومت ایسے کرنے کے موقعے کے انتظار میں تھی۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں