اسلام آباد (ویب ڈیسک ) گذشتہ ہفتے پاکستان کی عسکری قیادت کے 217 ویں کور کمانڈر اجلاس کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز بظاہر معمولی نوعیت کی تھی جو عمومی طور پر ایسے اجلاسوں کے بعد شائع کی جاتی ہیں اور جن میں علاقائی اور ملکی صورتحال کا تذکرہ ہوتا ہے۔
لیکن اس اجلاس کے چند روز بعد واٹس ایپ گروپس پر ایسے پیغامات گردش کرنے لگے جن میں اس اجلاس میں ہونے والے مبینہ فیصلوں کا حوالہ دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کے ارکان کو اپنے واٹس ایپ گروپس بند کرنے یا ان سے نکل جانے کو کہا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کا اکاﺅنٹ بنانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح کے ایک اور پیغام کے مطابق فوج کے تمام حاضر سروس افسران کو مبینہ طور پر متنبہ بھی کیا گیا کہ اگر انھوں نے تمام واٹس ایپ گروپس سے قطع تعلق نہ کیا تو ان کے خلاف انضباطی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ فوجیوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟
ان پیغامات کے سامنے آنے کے بعد بی بی سی نے اس حوالے سے مختلف فوجی ذرائع سے رابطہ کیا اور حقائق جاننے کی کوشش کی کہ آیا اس نوعیت کے کوئی احکامات انھیں دیے گئے ہیں یا نہیں۔ پاکستانی فوج کے متعدد افسران کی جانب سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ تصدیق کی گئی کہ یہ پیغامات درست ہیں۔ یہی نہیں بلکہ گذشتہ چند دنوں کے دوران فوجی افسران کی جانب سے ایسے واٹس ایپ گروپس چھوڑنے کے واقعات بھی پیش آئے جن کا تعلق ان کی پیشہ ورانہ زندگی سے نہیں تھا۔
کرنل کے عہدے پر فائز ایک افسر سے جب بی بی سی نے یہ سوال کیا کہ ان احکامات کی کوئی وجہ بتائی گئی ہے تو انھوں نے اپنے ایک لفظی جواب میں کہا: “سکیورٹی”۔ اسی طرح کی تصدیق چند دیگر فوجی افسران نے بھی کی جو مختلف واٹس ایپ گروپس کا حصہ تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ “سرکاری وجوہات” کی بنا پر گروپ چھوڑ رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر انھیں حساس نوعیت یا اپنے پیشے سے متعلق معلومات شیئر نہ کرنے کا حکم دیا گیا اور اب واٹس اپ اور دیگر سوشل میڈیا کا استعمال ترک کرنے کو کہہ دیا گیا ہے۔