دلی فسادات: گرفتار 22 افراد عدالت میں پیش، علاقے میں کشیدگی برقرار

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) دلی کے علاقے جہانگیر پوری میں سنیچر کو ہونے والے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے اب تک 22 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جن میں دو بچے بھی شامل ہے۔

اتوار کو ان میں سے 14 افراد کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جس کے بعد پولیس نے انصر اور اسلم نامی دو نوجوانوں کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے جبکہ 12 دیگر کو 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا ہے۔

سینچر کی شام کو جہانگیرپوری میں بھگوان ہنومان کی پیدائش ’ہنومان جینتی‘ کے جلوس پر پتھراؤ کے بعد دو گروہوں میں تصادم شروع ہو گیا تھا۔

پولیس کے مطابق اس ہنگامے میں پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے ہیں اور مشتعل مظاہرین نے چند گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دلی پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کرنے کے بعد ضروری اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔

’آنکھوں دیکھا حال‘

اتوار کو بھی جہانگیرپوری کے بلاک سی میں پولیس کی بھاری نفری کو تعینات دیکھا گیا۔ خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق جہانگیرپوری میٹرو سٹیشن کے پاس دکانیں اور مارکیٹیں معمول کے مطابق کھلی ہیں۔

تاہم اب بھی اس علاقے میں خوف کی فضا قائم ہے۔

بلاک سی اس تشدد کا مرکز رہا تھا۔ وہاں رہنے والے شیخ امجد نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ وہ مسجد میں تھے جب ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔

اُنھوں نے کہا: ‘(ہنومان جینتی میں شامل) جے شری رام کے اور اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے مسجد میں زبردستی داخل ہو گئے اور احاطے میں زعفرانی پرچم باندھنے شروع کر دیے۔ اُنھوں نے ہمیں تلواریں بھی دکھائیں اور دھمکیاں دیں۔ اس کے بعد پتھراؤ شروع ہوا۔ جہانگیرپوری میں ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔’

امجد نے بتایا کہ مسجد میں تقریباً 50 لوگ داخل ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد مسجد کے گرد واقع سی اور ڈی بلاکس کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور ہر 200 میٹر پر رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں۔ اس کے بعد بھی مسجد کے گرد قائم دکانیں بند رہیں۔

منوج کمار کی دکان سی بلاک میں ہے۔ اُنھوں نے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے لوگوں کو چلاتے اور اپنے گھروں کی طرف دوڑتے دیکھا۔ اس سے پہلے لوگوں کی آپس میں تلخ کلامی ہو رہی تھی۔ جلوس میں شامل لوگ مسلح تھے مگر پتھراؤ مسلمانوں نے شروع کیا۔’

تاہم سی بلاک میں ہی ایک دکان کے مالک مکیش نے کہا کہ اس علاقے کا امن تباہ کرنے والے ضرور باہر سے ہوں گے۔

‘میں اس علاقے میں 35 سال سے رہ رہا ہوں مگر کبھی بھی ایسا تشدد نہیں دیکھا۔ یہاں ہندو اور مسلمان پرامن انداز میں رہتے ہیں۔’

نئی دہلی کے پولیس کمشنر راکیش استھانہ کا کہنا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں اور موقع پر اضافی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ دلی کے تمام حساس علاقوں میں اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ ہم ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔‘

پولیس کمشنر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیئر افسران کو فیلڈ میں رہنے اور امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

انھوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں اور جھوٹی خبروں پر دھیان نہ دیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر منافرت بھرے پیغامات کی بھرمار دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ دلی میں سنہ 1984 کے بعد سے کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا لیکن امت شاہ کو ملک کا وزیر داخلہ بنے ابھی تین سال ہوئے ہیں اور دلی میں دو بار فسادات ہو چکے ہیں۔

اس سے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں دس اپریل کو ہندو تہوار رام نوامی پر پھوٹنے والے فسادات کے بعد وہاں متعدد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔

انڈیا کے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متعدد پریشان کن تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس میں بڑے بڑے پیلے رنگ کے بلڈوزر گھروں کو مسمار کر رہے ہیں اور ان گھروں کے مکین بے بسی سے نم آنکھوں کے ساتھ یہ سب کچھ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔

ان واقعات اور تصاویر نے انڈیا میں غم و غصے کی بحث کو جنم دیا ہے اور ناقدین اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی، جو مدھیہ پردیش میں بھی برسراقتدار ہے، کی طرف سے انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کا مشترکہ بیان

دریں اثنا انڈین میڈیا کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انڈیا میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح کے بیانات دینے والوں کو ’سرکاری سرپرستی حاصل ہے‘ اور ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔

اس پر دستخط کرنے والوں میں حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کے سربراہان شامل ہیں جن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے علاوہ ترنمول کانگریس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ قابل ذکر ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کھانے، پینے، لباس، عقائد، تہوار اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر حکمراں جماعت کی جانب سے دانستہ طور پر معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے ایسے ماحول میں وزیر اعظم کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں