لاہور: سری لنکن شہری کا قتل، 6 افراد کو سزائے موت، 9 کو عمر قید کی سزا

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے کیس میں لاہور کی انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے چھ افراد کو سزائے موت، نو کو عمر قید اور 72 افراد کو دو دو سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

اس کیس میں 89 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا جن میں سے 88 کو سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ ایک شخص کو پانچ سال قید جبکہ ایک ملزم کو بری کر دیا گیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت گوجرانوالہ ڈویژن کی جج نتاشہ نسیم سپرا کے روبرو اس اہم کیس کی سماعت 14 مارچ کو شروع ہوئی تھی۔ اس کیس کی سماعت کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ہو رہی تھی۔

یوں ایک ماہ چار روز تک کیس کی سماعت جاری رہی۔ مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر کیس ٹرائل گوجرانوالہ میں خصوصی عدالت میں کرنے کی بجائے تمام ملزمان کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کردیا گیا تھا۔

سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو تین دسمبر کو وسطی پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک فیکٹری میں توہین مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا اور لاش کو آگ لگا دی گئی تھی۔ اس واقعے کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی تھی اور پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لے کر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانے کا اعلان کیا تھا۔

اس مقدمے میں ملزمان کی گرفتاری اور چالان کی تیاری کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے گئے اور لگ بھگ دو سو افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے 89 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا جبکہ باقی افراد کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

سیالکوٹ پولیس نے مقدمے کا چالان واقعے کے تین ماہ بعد چار مارچ کو عدالت میں پیش کیا تھا۔

اس بارے میں سیالکوٹ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ہجوم کے ہاتھوں قتل کا واقعہ تھا اور اس میں ملزمان کی نشاندہی کرنا عام قتل کیس سے بالکل الگ اور ایک مشکل کام تھا۔ ان کے مطابق قانونی شہادتیں اس قدر پیچیدہ تھیں کہ ان میں وقت لگنا ہی تھا۔

استغاثہ کے مطابق 55 ملزمان کے موبائل فون سے ملنے والی ویڈیوز کو چالان کا حصہ بنایا گیا جبکہ 46 چشم دید گواہوں کو چالان کا حصہ بنایا مجرمان پر 12 مارچ کو فرد جرم عائد ہوئی جس میں مجرمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔ مجرمان کے زیر دفعہ 342 کے تحت آخری بیانات قلمبند کیے گئے۔ عدالت میں استغاثہ کے تمام چشم دید گواہان کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے۔

تفتیشی افسر انسپکٹر طارق محمود نے بتایا کہ پراسیکیوشن نے ملزمان کے خلاف 2 چالان جمع کروائے، پہلے چالان مین 80 ملزمان کو نامزد کیا گیا جبکہ دوسرا چالان 9 نابالغ ملزمان کا پیش کیا گیا تھا۔ یوں 18 سال سے کم ملزمان کا ٹرائل دیگر ملزمان سے الگ ہوا۔

پاکستانی قوانین کے مطابق نابالغ ملزمان کو قانون کے تحت سزائے موت نہیں ہو سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں