کولمبو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) سری لنکا میں جمعے کے روز جاری کردہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں افراطِ زر کی ریکارڈ بلند سطح دیکھی گئی ہے۔ افراطِ زر میں یہ تیز رفتار اضافہ پچھلے چھ ماہ سے جاری ہے۔
سری لنکا نے اسی بدترین صورت حال کے تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے فوری امدادی پیکیج کی درخواست کی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق مارچ میں نیشنل کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) ساڑھے اکیس فیصد پر دیکھا گیا جو گزشتہ برس کے مقابلے میں چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔ گزشتہ برس سری لنکا میں سی پی آئی پانچ اعشاریہ ایک فیصد تھا۔
سری لنکا کے محکمہ برائے شماریات و مردم شماری کے مطابق مارچ میں غذائی اجناس کی قیمتیں ساڑھے انتیس فیصد کی سطح پر دیکھی گئیں۔
کہا جا رہا ہے کہ اس سطح میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ریاستی تیل کمپنی نے ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ اب تک یہ اضافہ قریب پینسٹھ فیصد تک ہو چکا ہے۔
بدترین معاشی صورتحال کے تناظر میں سری لنکا میں کئی مقامات پر مظاہرے بھی جاری ہیں۔ مظاہرین صدر گوٹابایا راجاپاکسے کی حکومت کو بدانتظامی اور کرپشن پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کولمبو حکومت نے رواں ہفتے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ہنگامی مدد کی درخواست کی تھی تاہم آئی ایم ایف نے سری لنکا پر اکیاون ارب ڈالر کے بیرونی قرضے کے تناظر میں کہا تھا کہ کسی بھی امداد سے قبل سری لنکا کو اپنے قرضہ جات کو ری اسٹرکچر کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف کے کنٹری ڈائریکٹر ماساہیرو نوزاکی کی جانب سے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ جب آئی ایم ایف دیکھے گا کہ ملکی قرضہ جات موجودہ حالت میں ‘عدم استحکام‘ کا باعث ہیں، تو ایسی صورت میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کسی بھی قرضے سے قبل ملک کو مالیاتی استحکام کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔”آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرام کے لیے سری لنکا کو قرضوں کے حوالے سے مالیاتی استحکام کی ضمانت دینا ہو گی۔‘‘
سری لنکا کی حکومت نے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے دیوالیہ پن کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ قیمتی زرمبادلہ فی الحال فقط خوراک اور ادویات سمیت انتہائی ضروری چیزوں کے لیے استعمال ہوں گے۔
دوسری جانب متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ اسی تناظر میں منگل کے روز وسطی سری لنکا میں ہونے والی جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک جب کہ دیگر تیس زخمی ہو گئے تھے۔ پچھلے چھ ہفتوں میں ایندھن کے لیے لگی لمبی لمبی قطاروں میں شامل چھ افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔