لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) تیل اور گیس اس وقت پوری دنیا میں کئی تنازعات کی وجہ بن چکے ہیں لیکن آنے والے وقت میں یہ مقابلہ کچھ اور معدنیات کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔
یہ 8 مارچ کی بات ہے، جب صبح 5:42 بجے نکل کی قیمت اتنی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی کہ لندن میٹل ایکسچینج میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
18 منٹ میں نکل کی قیمت ایک لاکھ ڈالر فی ٹن تک پہنچ گئی۔ جس کی وجہ سے نکل کے آپریشنز کو روکنا پڑا۔
یہ ریکارڈ توڑنے سے پہلے ہی نکل کی قیمت میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 250 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مارکیٹ میں دھات کا بڑا بحران پیدا ہوا۔
مغربی ممالک کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں کے باعث قیمتوں میں اس اضافے سے واضح ہو گیا کہ نکل جیسی دھات دنیا میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ ایک ایسی معیشیت کے لیے اہم ہے جو فوسل فیول پر کم سے کم انحصار کرنا چاہتی ہے۔
روس گیس اور تیل کا بڑا سپلائر ہے۔ روس یوکرین جنگ کے دوران گیس اور تیل کے لیے یورپی ممالک کا روس پر انحصار یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایندھن کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یوکرین پر حملہ روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یورپ روس سے تیل اور گیس خریدنے پر مجبور ہے۔
صدر جو بائیڈن نے 31 مارچ کو کہا تھا ’امریکہ کی اپنی بنائی صاف توانائی پر انحصار مستقبل میں ہماری قومی سلامتی کے تحفظ میں مددگار ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمیں مستقبل کا تعین کرنے والی چیزوں کے لیے چین اور دیگر ممالک پر اپنا دیرینہ انحصار ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ دفاعی پیداوار کے قانون کا نفاذ کر رہے ہیں تاکہ برقی بیٹریوں کی تیاری اور قابل تجدید توانائی کی سٹوریج میں استعمال ہونے والے معدنیات کی مقامی طور پر پیداوار اور پروسیسنگ میں مدد مل سکے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ان معدنیات میں لیتھیم، نکل، گریفائٹ، مینگنیج اور کوبالٹ شامل ہیں.
روس کے توانائی کے ہتھیار
لیکن ہر ملک کے پاس مختلف معدنیات ہوتی ہیں تاکہ وہ توانائی کی برقی معیشت کی طرف منتقلی کے دورانیے میں مارکیٹ شیئر میں بہتر مقابلے کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جو ممالک تیل، گیس اور کوئلے کی سپلائی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ان کے مقابلے میں پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔
مثال کے طور پر روس جس کی اقتصادی طاقت بنیادی طور پر زمین سے حاصل کیے جانے والے ایندھن پر منحصر ہے، یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گیس پیدا کرنے والا اور تیسرا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔
تاہم، روس مستقبل میں معدنیات کے مقابلے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کیونکہ روس دنیا میں کوبالٹ اور پلاٹینیم کا دوسرا بڑا اور نکل کا تیسرا بڑا سپلائر ہے۔
یوں تو روس میں بعض معدنیات کی فراوانی ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ اہم معدنیات دوسرے ممالک میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کوبالٹ کا سب سے بڑا حصہ جمہوریہ کانگو، نکل کا انڈونیشیا، لیتھیم کا آسٹریلیا، تانبے کی چائلز اور نایاب معدنیات چین سے نکالی جاتی ہیں۔
متبادل توانائی کے لیے ماہرین دنیا میں کم از کم 17 معدنیات کو اہم سمجھتے ہیں۔ اس لیے جن ممالک کے پاس ان معدنیات کو نکالنے اور پراسیس کرنے کی صلاحیت ہے وہ زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ ان 17 معدنیات میں سب سے اہم رئیر ارتھ، لتیم، نکل، کوبالٹ، تانبا، گریفائٹ ہیں۔
ان معدنیات کی پیداوار میں کون سا ملک آگے ہے؟
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ماہر تائی یون کم کا کہنا ہے کہ 2040 تک ان معدنیات کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔
یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ کون سی اقوام توانائی کی منتقلی سے سب سے زیادہ مستفید ہو سکتی ہیں، تائی یون کم معدنیات کو نکالنے اور پروسیسنگ کرنے والے ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
اگرچہ معدنیات نکالنے والے ممالک بہت سے ہیں لیکن ایک ہی ملک ہے جو ان تمام معدنیات کی پروسیسنگ پر غلبہ رکھتا ہے اور وہ ہے چین۔
تائی یون کم نے بی بی سی منڈو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توانائی کی منتقلی سے کس ملک کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ پروڈکشن چین یا پیداواری سلسلے میں اس ملک کا کونسا نمبر ہے۔‘
لیکن یہ واضح ہے کہ ہم ایک نازک موڑ پر ہیں۔ جہاں تیل نے 20ویں صدی کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں 21ویں صدی کی تاریخ میں متبادل توانائی کے لیے معدنیات اہم کردار ادا کریں گی۔
اسی لیے ماہرین انھیں ’مستقبل کی معدنیات‘ قرار دیتے ہیں۔
چار اہم دھاتیں
اگرچہ الیکٹرک بیٹریوں میں دھات کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ صنعتی سرگرمیوں کے لیے کئی قسم کی توانائی کو ذخیرہ کرنے میں بھی اہم ہیں۔
جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے محقق لوکاس بوئر کا کہنا ہے کہ ’اگر ان دھاتوں کی سپلائی طلب سے مطابقت نہیں رکھتی تو ان کی قیمتیں آسمان کو چھو جائیں گی۔‘
اینڈریا پیسکاٹوری اور مارٹن سٹرمر کے ساتھ لوکاس بوئر کی ایک تحقیق ’انرجی ٹرانزیشن والی دھاتیں‘ کے نام سے گذشتہ سال کے آخر میں شائع ہوئی تھی۔
بوئر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ایک اہم عنصر ان دھاتوں کو نکالنے کا عمل ہے۔ درحقیقت ان دھاتوں کو نکالنے کے لیے شروع کیے گئے کان کنی کے منصوبوں میں ایک دہائی (اوسطاً 16 سال) لگتے ہیں۔ اس لیے آنے والے دنوں میں ان دھاتوں کی مزید قلت ہو سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق رئیر ارتھ کے علاوہ چار اہم ترین دھاتیں نکل، کوبالٹ، لیتھیم اور کاپر ہیں۔ ان کی قیمتیں تاریخی طور پر لمبے عرصے تک بڑھتی رہیں گی اور یہ کوئی عام اضافہ نہیں ہوگا کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمت چند دن بڑھے اور پھر کم ہو جائے۔
صرف ان چار دھاتوں کو پیدا کرنے والے ملک اگلے 20 سالوں میں تیل کے شعبے کے برابر آمدنی کما سکتے ہیں۔
بوئر کہتے ہیں ’یہ دھاتیں ایک طرح سے ’نیا تیل‘ ہو سکتی ہیں، اور چین دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کرکے سب سے بڑا کھلاڑی بن گیا ہے، جیسا کہ اس نے کوبالٹ پیدا کرنے والے کانگو میں سرمایہ کاری کی ہے۔‘
مغربی ممالک کے پیچھے رہ جانے کا خوف
نئے جنگی حالات میں جب مغربی ممالک کو توانائی پر انحصار کم کرنے کی ضرورت ہے، ایسے ممالک بھی ہیں جو تبدیلی کے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی ضرورت کا کچھ حصہ فراہم کر سکتے ہیں۔
بلومبرگ این ای ایف ریسرچ سنٹر میں دھاتوں اور کان کنی کے سربراہ کواسی امپوفو کا کہنا ہے کہ چین اس تبدیلی سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر چین روس کی دھاتوں کی پیداوار کو اپنی ریفائنری میں لانے اور اسے دوسرے ممالک کو فروخت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ تبدیلی کے اس عمل میں سب سے بڑا فاتح بن سکتا ہے۔
تاہم دیگر ممالک بھی میدان میں ہیں۔ نکل کی بات کریں تو انڈونیشیا گذشتہ دو سالوں سے اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ روس کی جانب سے کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ اس میں مزید اضافہ کرتا رہے گا۔
نکل وہ دھات ہے جو روس یوکرین جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ روس ایک ایسا ملک ہے جو اپنی عالمی پیداوار کا نو فیصد پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف، اگر پلاٹینم گروپ کی دھاتوں کی کمی ہوتی ہے تو جنوبی افریقہ کے ممالک اسی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔
مستقبل کی دھاتوں کو کنٹرول کرنے کی لڑائی میں چین کو کئی حوالوں سے برتری حاصل ہے۔
ایسے میں اگر مغربی ممالک نے تیزی سے کوئی اقدامت نہ اٹھائے تو ان کے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔