کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) سکیورٹی خدشات کے باعث پاکستانی صوبے بلوچستان میں غیر ملکی شہریوں کی تمام سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں۔ سی پیک اور دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو تا حکم ثانی عوامی مقامات پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق غیر ملکی کمپنیوں نے بلوچستان میں اپنے عملے کی سکیورٹی کے معاملات سے متعلق شدید خدشات ظاہر کیے ہیں اور اس صورت حال سے پاکستان میں وفاقی حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گزشتہ روز چینی اساتذہ پر حملے میں ملوث بلوچستان لبریشن آرمی نامی کالعدم تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان بھر میں اپنے اہداف پر حملوں کے لیے خود کش حملہ آور تیار کیے ہیں، جن میں خواتین کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔
گزشتہ سال 20 اگست کو گوادر ایکسپرس وے منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینیئروں کے قافلے پر بھی ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا، جس میں دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر دو ہزار سے زائد چینی باشندے اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کے اہلکار کام کر رہے ہیں۔
بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے غیر ملکی کمپنیوں پر بلوچستان کے وسائل لوٹنے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ ایسے شدت پسند گروپوں کے اتحاد (براس) ‘راجی اجوئی سنگر‘ اور سندھی عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش انقلابی آرمی نے کچھ عرصہ قبل اپنے مشترکہ اہداف پر حملوں کا اعلان کیا تھا۔ کرچی سمیت ملک کے کئی حصوں میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری بھی بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
اسلام آباد میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں غیر ملکی شہریوں کی سکیورٹی کے معاملات کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس اہلکار نے کہا، ”پاکستان اس وقت خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے باعث ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ یہاں کیے جانے والے اقدامات سے بعض ممالک ناخوش ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہاں استحکام ہو۔ اسی لیے امن مخالف عناصرکو منصوبے کے تحت منظم کیا گیا ہے تاکہ ایسے اہداف پر حملے کیے جائیں، جن سے پاکستان میں داخلی سلامتی کے معاملات پر سوال اٹھائے جا سکیں۔‘‘
اس سکیورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شہری شدت پسند گروہوں کے لیے آسان ہدف ہیں اور اسی لیے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پاکستانی اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسی تمام کوششوں کا مقصد ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ ملک دشمن قوتیں اور ان کے آلہ ہائے کار بدامنی پھیلا کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں چینی شہریوں پر گزشتہ روز کیا گیا خونریز حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔‘‘
صوبے بھر میں ہائی الرٹ
محکمہ داخلہ بلوچستان نے آج بروز بدھ کوئٹہ میں صوبے بھر کے تمام انتظامی افسران کو اپنے اپنے اضلاع میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دینے کی ہدایت کی۔ امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے صوبے کے حساس علاقوں میں ان ہوٹلوں کی سکیورٹی میں بھی غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے، جہاں غیر ملکی شہری مقیم ہیں۔
بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر تی رہی ہیں۔ سابق دور حکومت میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل بھی حکومتی اتحاد سے اس لیے الگ ہو گئی تھی کہ صوبے میں سلامتی سے متعلق اس کے تحفظات دور نہیں کیے گئے تھے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں میں صوبے کی حقیقی قیادت کو مسلسل نظرانداز ہی کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”مرکز سے ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ حالات بگاڑنے کے بجائے صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بلوچ عوام اپنے وسائل کا سودا کسی بھی طرح تسلیم نہیں کر سکتے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے جو تحفظات سامنے لائے جا رہے ہیں، انہیں نظرانداز کرنا حکومت کی بے حسی کا ثبوت ہے۔ ہمارے دور حکومت میں جو معاہدے کیے گئے، ان میں بھی زمینی حقائق کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔ مرکز کی بلوچستان کے حوالے سے پالیسی ہمیشہ تضادات کا شکار ہی رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت قومی اکائیوں کو اہم معاملات میں نظرانداز کر کے ملک کو استحکام کے بجائے بحرانوں سے دوچار کر رہی ہے۔ ان کے بقول، ”یہ درست ہے کہ اس وقت ملک کو کئی چینلجز کا سامنا ہے، جن میں ملکی استحکام اہم ترین ہے۔ لیکن بگڑتے ہوئے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر دانش مندی کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا، تو حالات اس قدر تشویش ناک نہ ہوتے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور طاقت کے بجائے افہام وتفہیم سے معاملات حل کرے۔‘‘
عسکریت پسندوں کا بنیادی ہدف ملکی سلامتی
پاکستانی دفاعی امور کے تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق کہتے ہیں کہ چینی شہریوں پر حملوں کو سلامتی کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”پاکستان میں حالیہ شورش اس لیے پیدا کی گئی کہ حکومتی رٹ کو ناکام ثابت کیا جا سکے۔ ظاہری بیانات کچھ بھی ہوں، میرے خیال میں عسکریت پسندی میں ملوث تنظیموں کا بنیادی ہدف ملکی استحکام کو نقصان پہنچانا ہے۔ ایسی کوششوں میں امن دشمن قوتیں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ خود کش حملوں میں خواتین حملہ آوروں کے استعمال کا جو نیا رجحان سامنے آیا ہے، وہ بہت خطرناک ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان دوریاں بڑھانے او اسٹریٹیجک تعلقات کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا، ”چین دنیا میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے ایک ابھرتا ہوا ملک تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر جو تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں، ان کا اصل پس منظر کچھ اور بھی ہے۔ غیر معمولی خرابی اس وقت شروع ہوئی، جب یہاں سی پیک منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغاز ہوا۔ اس منصوبے سے قبل حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ اس کی ایک واضح مثال بلوچستان کا سیندک پروجیکٹ ہے، جہاں کئی دہائیوں سے چینی انجینیئر کام کر رہے ہیں۔ ان پر پہلے ایسے حملے کیوں نہیں ہو رہے تھے؟‘‘
عمر فاروق نے بلوچستان میں شدت پسند تنظیم داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھی تشویش ناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو سکیورٹی صورت حال اور بھی بگڑ سکتی ہے۔ چند سال قبل کوئٹہ کے جناح ٹاؤن سے دو چینی اہلکاروں کے اغوا اور پھر قتل کی ذمہ داری بھی شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کر لی تھی۔
ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اسلام آباد میں چینی سفارت خانے نے پاکستانی حکومت سے ملک میں چینی شہریوں کی سلامتی کے لیے مؤثر اقدامات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔