پٹیالہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) دو گروہوں میں جھڑپوں کے بعد ہندوؤں نے بھارتی شہر پٹیالہ میں ہڑتال کی کال دیتے ہوئے خالصتان کے حامیوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ شہر میں زبردست کشیدگی ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کو معطل کر دیا گیا ہے۔
بھارتی ریاست پنجاب کے معروف شہر پٹیالہ میں جمعہ 29 اپریل کو خالصتان کی مخالفت میں ہونے والے مارچ کے دوران سکھوں اور ہندو گروپوں میں تصادم کے بعد، حالات بدستور کشیدہ ہیں اس لیے حکام نے سنیچر کے روز انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کو پوری طرح سے معطل کر دیا۔ تناؤ کے سبب جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
This is from Punjab.
Khalistanis with swords chanted Khalistan Zindabad.
Stones were hurled and swords were brandished as two groups clashed in Patiala.
The incident happened when the Shiv Sena was carrying out a march against Khalistani groups in Patiala. pic.twitter.com/sLj6iqDFyJ
— Anshul Saxena (@AskAnshul) April 29, 2022
اس سلسلے میں اب تک متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ریاست پنجاب کی حکومت نے پولیس کے خلاف بھی سخت کارروائی کرتے ہوئے محکمے کے تین اعلیٰ افسران کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
مقامی پولیس حکام کے ایک بیان کے مطابق، ’’امن وامان کو برقرار رکھا جانا ضروری ہے اور صورتحال قابو میں ہے۔ افواہ پھیلانے کو روکنے کے لیے آج موبائل انٹرنیٹ سروسز کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہیں اور ویڈیو فوٹیج سے جمع ہونے والے شواہد کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔‘‘
Open call for Khalistan in Patiala, Punjab! Hindu Nationalists and Khalistan supporting Sikhs have clashed today in India and the Khalistan movement is not anymore limited to a group of Sikhs in Canada or UK! pic.twitter.com/gx1nEuHHXR
— Ashok (@ashoswai) April 29, 2022
اس دوران مختلف ہندو تنظیموں نے سنیچر کے روز شہر کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ جو لوگ علیحدگی پسند تحریک خالصتان کے حامی ہیں، ان کو گرفتار کیا جائے۔
معاملہ کیا ہے؟
بھارتی ریاست پنجاب میں علیحدگی پسند تحریک خالصتان کے حامی 29 اپریل کو علامتی طور پر یوم خالصتان مناتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ہندو گروپوں نے اس کی مخالفت میں جمعے کے روز پنجاب کے معروف شہر پٹیالہ میں ’’خالصتان مردہ باد‘‘ کے نام سے ایک ریلی کا اہتمام کیا تھا۔
تاہم جب ’’خالصتان مردہ باد‘‘ مارچ شہر کے معروف کالی ماتا مندر کے پاس پہنچا تو وہاں ایک بڑی تعداد میں سکھ برادری کے لوگ اس کی مخالفت میں باہر نکل آئے اور اس طرح دونوں گروپوں میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
ہندو گروپ کی قیادت شیو سینا کے ایک مقامی رہنما کر رہے تھے اور جب تصادم شروع ہوا تو دونوں گروپوں کے ارکان نے تلواریں لہرائیں اور ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کیا۔ پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ تصادم میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔
تصادم کے بعد شہر کے ایک اہم چوک پر سکھ برادری کی ایک بڑی تعداد جمع ہو کر دھرنا دینے لگی اور اس سے متعلق ویڈیوز میں دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ یہ سکھ شہری بہت زرو شور سے خالصتان کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں ہندو گروپوں نے خالصتان کی مخالفت میں بھی نعرے لگائے۔
جھڑپوں کے بعد پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے افسران کی اعلیٰ سطحی میٹنگ طلب کی۔ بعد میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے اس تصادم کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور سخت ہدایات دی ہیں اور ایک بھی مجرم کو بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’’پنجاب مخالف قوتوں کو کسی بھی قیمت پر پنجاب کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
خالصتان تحریک کیا ہے؟
بھارتی صوبے پنجاب کو سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان بنانے کی مہم کافی پرانی ہے اور اس سے وابستہ بیشتر رہنما امریکا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہ کر اپنی مہم چلاتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی طرح بھارتی ریاست پنجاب میں بھی علیحدگی پسندی کی تحریک، اس کے خلاف تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود آج تک ختم نہیں ہوئی۔ فرق محض اتنا ہے کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں، جن میں مقامی باشندوں کی رائے سے مسئلے کے حل کی بات کی گئی ہے۔
خالصتان تحریک کی حامی ایک معروف تنظیم ”سکھ فار جسٹس‘‘ (ایس جے) ہے۔ اسی تنظیم کے ایک رہنما گرپتونت سنگھ پنّو نے، جو بیرون ملک مقیم ہیں، 29 اپریل کو بھارتی پنجاب میں یوم خالصتان منانے کی اپیل بھی کی تھی۔
گزشتہ برس انہوں نے اپنی ایک ویڈیو کال میں اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص بھارتی پارلیمان پر خالصتانی پرچم لہراتا ہے تو اسے سوا لاکھ امریکی ڈالر بطور انعام دیا جائے گا۔ گزشتہ اکتوبر میں اسی تنظیم نے ایک آن لائن ریفرنڈم کا اعلان کیا تھا، جس میں اس بات کا فیصلہ کیا جانا تھا کہ پنجاب سے ایک الگ ریاست قائم کی جائے یا نہیں۔
سکھ فار جسٹس تنظیم نے 18 برس سے زیادہ عمر کے تمام سکھوں سے اس ریفرنڈم میں ووٹنگ کے عمل میں حصہ لینے کی اپیل بھی کی تھی۔