لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں ایک خاتون کی لاش کو قبر سے نکالنے کے واقعے کے بعد پولیس نے قبرستان اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو گھیرے میں لے کر ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔
مقدمے کے مدعی کا کہنا ہے کہ قریب 20 سالہ معذور بھانجی کی تدفین کے اگلے روز جب ورثا قبرستان پہنچے تو قبر سے ایک سلیب غائب تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قبر کے اندر جھانکا تو بھانجی کی لاش غائب تھی اور یہ دور برہنہ حالت میں پڑی تھی۔
گجرات کے تھانہ ٹانڈہ کے ایس ایچ او ظفر اقبال نے اس نمائندے کو بتایا کہ اب تک 12 مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم کا تعلق اسی گاؤں سے ہو سکتا ہے لہٰذا گاؤں کے تمام گھروں کے بالغ مردوں کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔
’معذور بھانجی کی لاش برہنہ حالت میں قبر سے دور پڑی تھی‘
یہ واقعہ ضلع گجرات کے قصبہ ٹانڈہ سے 15 کلو میٹر دور ایک گاؤں چک کمالہ کا ہے جہاں کے رہائشی عبدالخالق نے بتایا کہ ان کی بھانجی کی عمر 18 سے 20 سال تھی اور وہ ذہنی و جسمانی طور پر معذور تھیں۔
ان خاتون کی وفات 4 مئی کو بدھ کے روز ہوئی اور اسی روز ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ انھیں شام چھ بجے گاؤں کے مقامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا اور اہل خانہ معمول کے مطابق گھروں کو واپس چلے گئے۔
جب 5 مئی کی صبح سات بجے اہل خانہ فاتحہ خوانی کے لیے قبرستان پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ قبر کھودی گئی ہے اور لاش غائب ہے۔ انھوں نے اردگرد تلاش کی تو لگ بھگ 25 میٹر دور دو پکی قبروں کے درمیان ان کی بھانجی کی برہنہ لاش پڑی ہوئی تھی۔
اس واقعے پر گاؤں بھر میں شور مچا اور لوگوں کی بڑی تعداد وہاں اکٹھی ہو گئی۔ ورثا نے فوری طور پر برہنہ لاش پر چادر ڈالی اور مقامی تھانے کو اطلاع دی۔
اطلاع ملنے پر پولیس نے لوگوں کو دور ہٹا کر موقع سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کردیے۔
گاؤں میں پہلے کبھی اس نوعیت کا افسوسناک واقعہ نہیں ہوا: پولیس
ایس ایچ او ظفر اقبال نے بتایا کہ لاش کا ڈی ایچ کیو ہسپتال گجرات سے پوسٹ مارٹم کروایا گیا ہے جس میں لاش پر کوئی زخم وغیرہ نہیں پایا گیا۔
پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے دوران لاش کے اجزا حاصل کر کے حتمی تجزیے اور رپورٹ کے لیے پنجاب کیمیکل ایگزامینر لاہور بھجوا دیے گئے ہیں۔
ایس ایچ او نے کہا ہے کہ ’یہ ایک دل دہلا دینے والا افسوسناک واقعہ ہے جو کہ ممکنہ طور پر رات کے کسی پہر پیش آیا اور ملزم یا ملزمان کی تعداد ایک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم پولیس کی مختلف خفیہ ٹیمیں پورے علاقے اور گرد و نواح میں چھان بین کر رہی ہیں۔ امید ہے کہ جلد ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
معذور بچی کی لاش کا پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد پولیس کے سخت حفاظتی پہرے میں جمعرات کو اسے دوبارہ سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔
چک کمالہ لگ بھگ 300 گھرانوں پر مشتمل گاؤں ہے جہاں کے زیادہ تر لوگ محنت مزدوری اور کاشتکاری سے وابستہ ہیں۔
پولیس کے مطابق چک کمالہ اور اس کے گرد و نواح میں ماضی میں کبھی اس نوعیت کا واقعہ پیش نہیں آیا۔
پولیس نے خاتون کے ورثا سے بھی اس بارے میں الگ الگ استفسار کیا کہ انھیں کس پر شک ہے تو سب نے نفی میں جواب دیا کہ بچی کی زندگی میں کسی نے کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ اس کی نیت خراب نظر آئے۔
ان خاتون کے بڑے بھائی بھی ذہنی و جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کی جسمانی نشو و نما معمول سے کم رہی ہے۔ چونکہ ان کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اس لیے وہ کسی اچھے ہسپتال سے علاج کروانے کے بجائے پیروں فقیروں کے پاس جاتے رہے ہیں۔ یوں دونوں بہن بھائی صحتیاب نہ ہو سکے۔
’یہ منظر ناقابل برداشت تھا‘
خاتون کے ماموں عبدالخالق مقدمے کے مدعی ہیں۔ اس نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آج جمعرات کی صبح جب ہم قبر پر اگربتیاں جلانے اور فاتحہ خوانی کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ قبر سے ایک سلیب غائب تھی۔‘
’ہم قبر دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ خدانخواستہ کیا ماجرہ ہو گیا۔ جب ہم نے قبر کے اندر جھانکا تو لاش ہی غائب تھی جس پر ہمارے ساتھ آئی خواتین نے رونا پیٹنا شروع کردیا۔ ہمارے بھی ہاتھ پیر پھول گئے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اردگرد دیکھا تو کہیں لاش نظر نہ آئی۔ اتنے میں دور سے ایک شخص نے آواز دی کہ پکی قبروں کے پاس ایک بچی کی لاش پڑی ہے۔ ہم بھاگم بھاگ وہاں پہنچے تو وہ اسی کی لاش تھی جو کہ برہنہ حالت میں پڑی تھی جس کے پاس سے کفن بھی غائب تھا۔‘
’یہ منظر ناقابل برداشت تھا۔ بچی کی برہنہ لاش دیکھ کر وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایسی درندگی کے بارے میں کبھی سوچا تھا نہ ہی سنا۔ ایک خاتون نے اپنی چادر فورا اتار کر اس کے اوپر رکھی اور برہنہ لاش کو ڈھانپا۔‘
ایس ایچ او ٹانڈہ ظفر اقبال نے بتایا کہ پولیس نے تاحال 12 مشکوک افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ ان مشکوک افراد کا ڈی این اے کروایا جائے گا اور اس سلسلے میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’یہ بات یقینی ہے کہ ملزم کا تعلق گاؤں سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ جس بندے کو علم ہو کہ جواں سال لڑکی فوت ہوئی ہے اور اس کی آج تدفین ہوئی ہے وہ کوئی باہر کا بندہ نہیں ہو سکتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس بات کی بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ مرنے والی لڑکی کے گھر کن افراد کا آنا جانا تھا۔ ’(تفتیش میں) ان میں محلے دار، رشتے دار اور قریبی جاننے والے افراد شامل ہیں۔ گاؤں کے تمام گھروں کے بالغ مردوں کا ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے اور جو لوگ گذشتہ رات کے بعد سے گھر سے باہر کسی دوسرے گاؤں رشتے دار وغیرہ کے گھر گئے ہیں ان کا بھی الگ سے ریکارڈ بنایا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ چند روز میں ملزم قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے گا۔