کیف (ڈیلی اردو) مشرقی یوکرین کے ایک سکول پر ہونے والی روسی بمباری کے نتیجے میں درجنوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں یوکرین کی افواج، روسی فوجیوں اور علیحدگی پسندوں سے لڑ رہی ہیں۔
لوہانسک کے ضلعی گورنر سرہی ہیدائی نے دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بلوہوریوکا میں ایک سکول کے ملبے تلے دبے 60 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔
ان کے مطابق اس عمارت میں تقریباً 90 افراد نے پناہ لی تھی اور اب تک 30 افراد کو بچا لیا گیا ہے جن میں سے سات زخمی ہیں۔
ہیدائی نے بتایا کہ سنیچر کے روز ایک روسی طیارے نے اس سکول پر بمباری کی۔ سرہی ہیدائی کے سکول پر بمباری کے الزام کی ابھی تک آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی اور روس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
لوہانسک میں روسی افواج اور علیحدگی پسند جنگجو حکومتی فورسز کا محاصرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دو ماہ قبل جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب اس علاقے میں شدید لڑائی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
بلوہوریوکا، حکومت کے زیر قبضہ شہر سیورو دونتسک کے قریب واقع ہے جہاں سنیچر کے روز نواحی علاقوں میں شدید لڑائی کی اطلاعات تھیں۔
یوکرین کے ایک اخبار یوکرائنسکا پراودا کے مطابق گذشتہ ہفتے کے دوران یہ گاؤں لڑائی کا مرکز بن گیا ہے۔ گورنر نے ٹیلی گرام پر لکھا ہے کہ دھماکے سے عمارت گر گئی اور اس میں آگ لگ گئی جسے بجھانے میں فائر فائٹرز کو تین گھنٹے لگے۔
ان کا کہنا ہے کہ تقریباً پورا گاؤں اس سکول کے تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا۔ گورنر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملبہ ہٹائے جانے کے بعد ہی مرنے والوں کی حتمی تعداد کا پتا چل سکے گا۔
سرہی ہیدائی کا کہنا ہے کہ پڑوسی گاؤں میں ایک گھر (جس کا نام انھوں نے شیپیلوو بتایا) بھی روسی گولہ باری کی زد میں آ گیا اور اس کے تہہ خانے میں 11 افراد پھنس گئے۔ انھوں نے کہا کہ امدادی کارکن ابھی بھی جائے وقوعہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہاں گولہ باری جاری ہے۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ 24 فروری کو روس کی قیادت میں یوکرین پر حملے کے بعد سے کم از کم 2354 افراد ہلاک اور 2919 زخمی ہو چکے ہیں، یہ تمام عام شہری تھے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے ہزاروں فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے 12 ملین سے زیادہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں، 5.7 ملین پڑوسی ممالک میں جبکہ 6.5 ملین یوکرین کے اندر ہی بے گھر ہوئے ہیں۔
دونباس کے علاقے لوہانسک کا زیادہ تر حصہ گذشتہ آٹھ سالوں سے علیحدگی پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔
ادھر یوکرین کے علاقے خارخیو میں بھی شدید لڑائی جاری ہے اور یوکرینی افواج یہاں اپنا کنٹرول بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
گذشتہ روز یوکرین کی نائب وزیر اعظم ایرینا ویریشچک کا کہنا تھا کہ تمام معمر افراد، خواتین اور بچوں کا ماریوپل شہر کے آزوفستال سٹیل پلانٹ سے انخلا مکمل کر لیا گیا ہے۔ یوکرینی افواج نے سنیچر کو بتایا کہ انھوں نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارخیو کے پانچ قصبوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کا آپریشن مداخلت کے خلاف کامیاب ثابت ہو رہا ہے اور اس حوالے سے یہ اہم پیشرفت ہے۔
خارخیو میں فروری سے شدید شیلنگ جاری ہے۔ خطے کے گورنر نے سنیچر کو کہا کہ روسی دستے اب بھی شہریوں پر گولیاں چلا رہے ہیں۔ انھوں نے شہریوں سے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملوں کے سائرنز کو نظر انداز نہ کریں۔
یوکرین کو خدشہ ہے کہ نو مئی سے قبل روسی شیلنگ مزید بڑھ سکتی ہے۔ روس اس دن 1945 میں نازی جرمنی کو شکست دینے کی خوشی میں ‘وکٹری ڈے’ یا یوم فتح مناتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف دی سٹڈی آف وار کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرینی دستے خارخیو کے قریبی مقامات پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ یوکرین کی مزاحمت سے روس پر دباؤ بڑھے گا اور اس طرح یہ ‘روسی سرحد کی طرف مزید پیشرفت حاصل ہوسکے گی۔‘
خارخیو میں بچوں کے ایک ڈاکٹر ہبانوف پیولو نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ محفوظ پناہ گاہوں یا شیلٹرز میں چھپے ہوئے ہیں اور ملازمتوں پر نہیں جا رہے۔ ’شہر میں زندگی معمول کے مطابق نہیں۔ خارخیو روسی سرحد سے کافی قریب ہے اور یہ شہر اکثر حملے کی زد میں آتا ہے۔ افسوس ہے کہ جنگ جاری ہے اور ہم بغیر کسی ڈر کے نہیں رہ سکتے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ جس ہسپتال میں وہ کام کرتے تھے اسے شیلنگ میں تباہ کر دیا گیا ہے۔
پیولو کا کہنا ہے کہ ہسپتال سے کئی بار شیلز ٹکرائے اور وہاں اب طبی سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں۔ روسی (فوجی) ہر وقت گولیاں چلاتے ہیں۔ میں اب ایک دوسرے ہسپتال میں کام کر رہا ہوں۔’
سنیچر کو شہر کے ایک میوزیم کو اس وقت تباہ کر دیا گیا جب اس کی چھت پر شیلنگ کی گئی۔ مگر یہاں سے قیمتی فن پارے پہلے ہی ہٹا لیے گئے تھے۔
ماریوپل کے سٹیل پلانٹ سے شہریوں کا انخلا مکمل
اس سے قبل تقریباً 100 شہریوں کے انخلا کا آپریشن ایک ہفتہ قبل شروع کیا گیا تھا اور اس میں اقوام متحدہ اور ریڈ کراس نے معاونت کی تھی۔
یوکرینی افواج نے بمباری سے متاثرہ اس پلانٹ پر مزاحمت دکھائی ہے۔ یہ شہر کا آخری حصہ ہے جو روسی افواج کے کنٹرول میں نہیں۔
روس نے اس پلانٹ کا کئی ہفتوں سے محاصرہ کر رکھا تھا اور مزاحمت کرنے والوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ماریوپل پر قبضہ روسی دستوں کے لیے اہم اس لیے ہے کیونکہ اس سے کریمیا اور ڈونباس کے بیچ زمینی راستوں تک رسائی حاصل کی جا سکے گی۔ اس سے انھیں یوکرین کے بحیرۂ اسود کے 80 فیصد سے زیادہ ساحل کا کنٹرول مل جائے گا۔
مگر اس کوشش میں انھوں نے ماریوپل پر توپوں، راکٹوں اور میزائلوں سے حملہ کیا اور شہر کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ تباہ کر دیا ہے۔
آگے کیا ہوسکتا ہے؟
بی بی سی کی لارا بیکر بتاتی ہیں کہ روسی فوجی شہریوں کے انخلا کے لیے سفید پرچم استعمال کر رہے تھے۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کچھ پیشرفت ہوئی ہے اور مذاکرات کی خاطر جانیں بچائی جا رہی ہیں۔
تاہم کریملن کی افواج نے گذشتہ دنوں کے دوران جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود سٹیل پلانٹ پر لڑائی کی شدت بڑھائی ہے۔
اب یوکرینی حکومت پر دباؤ ہے کہ ماریوپل میں اس مقام پر اپنے قریب دو ہزار فوجی استعمال کرتے ہوئے مزید مزاحمت دکھائیں۔ انھوں نے ہتھیار نہ ڈالنے کا وعدہ کیا ہے۔
یوکرینی خاندانوں نے عالمی رہنماؤں نے محفوظ انخلا اور امن مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر کریملن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہم بڑا جشن منائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس روز سرکاری دورے کا کوئی منصوبہ نہیں۔