اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت میں ایسے پاکستانی اقلیتی پناہ گزینوں کے مفادات کے لیے آواز بلند کرنے والی سماجی تنظیم ‘سیمانت لوک سنگھٹن‘ (ایس ایل ایس) کا کہنا ہے کہ بھارت کی شہریت کے حصول کے لیے اپنی درخواستوں پر کئی برسوں تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کے بعد بہت سے پاکستانی ہندو واپس وطن لوٹ گئے ہیں۔ سال 2021ء میں بھارت سے پاکستان واپس جانے والے ایسے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 800 رہی۔
ایس ایل ایس کے صدر ہندو سنگھ سوڈھا اس صورت حال سے کافی پریشان ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اگر ایک مرتبہ یہ لوگ واپس لوٹ گئے، تو پاکستانی ایجنسیاں انہیں استعمال کرتے ہوئے بھارت کو بدنام کریں گی۔ یوں انہیں میڈیا کے سامنے لایا جاتا ہے اور ایسے بیانات دینے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ بھارت میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔‘‘
بھارتی وزارت داخلہ نے سن 2018ء میں ملکی شہریت کے حصول کے لیے آن لائن درخواستیں وصول کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ اس وزارت نے بھارت کی سات ریاستوں میں 16 ضلعی کلکٹروں کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں، پارسیوں اور جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دیے جانے سے متعلق ان کی آن لائن درخواستیں وصول کریں۔
بھارتی وزارت داخلہ نے مئی 2021ء میں گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے مزید 13 اضلا ع کے حکام کو بھی مسلمانوں کو چھوڑ کر مذکورہ چھ مذہبی برادریوں کے تارکین وطن کو بھارتی شہریت کے قانون کی مختلف دفعات کے تحت ملکی شہریت کی سند جاری کرنے کے اختیارات دیے تھے۔
حالانکہ یہ پورا عمل آن لائن کر دیا گیا ہے لیکن متعلقہ ویب پورٹل درخواست دہندگان کے ایسے پاکستانی پاسپورٹ تسلیم نہیں کرتا، جن کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے ایسے ہندو پاکستانیوں کو اپنے پاسپورٹوں کی تجدید کے لیے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن جانا پڑتا ہے، جہاں ان کو بھاری فیسیں بھی ادا کرنا ہوتی ہیں۔
ہندو سنگھ سوڈھا کہتے ہیں، ”اگر ایسے کسی خاندان کے افراد کی تعداد دس ہو، تو انہیں پاکستانی ہائی کمیشن جا کر اپنے پاسپورٹوں کی تجدید کرانے کے لیے ایک لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ یہ لوگ مالی پریشانیوں سے نجات کے لیے بھارت آتے ہیں، اور ایسے میں ان کے لیے اتنی بڑی رقوم ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔‘‘
سوڈھا مزید کہتے ہیں کہ آن لائن درخواستیں دینے کے باوجود درخواست دہندگان کو متعلقہ کلکٹر کے پاس جاکر بھی دستاویزات جمع کرانا پڑتی ہیں، جو کہ ایک اضافی بوجھ ثابت ہوتا ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ آن لائن سسٹم کی افادیت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ وزارت داخلہ نے دسمبر 2021ء میں بھارتی پارلیمان کو بتایا تھا کہ آن لائن طریقہ کار کے مطابق اس وزارت کے پاس 10365 درخواستیں زیر التوا تھیں۔ ان میں سے 7306 درخواستیں پاکستانی درخواست دہندگان کی تھیں۔
سوڈھا کہتے ہیں کہ صرف راجستھان میں ہی 25 ہزار پاکستانی ہندو ہیں، جو بھارتی شہریت حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔ ان میں سے بعض تو گزشتہ دو دہائیوں سے انتظار میں ہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ نے شہریت کے قوانین میں سال 2015ء میں کئی تبدیلیاں کی تھیں۔ دسمبر 2014ء یا اس سے قبل مذہب کے نام پر زیادتیوں کی وجہ سے بھارت آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے قیام کو قانونی کر دیا تھا۔ ایسے افراد کو پاسپورٹ قوانین اور غیر ملکیوں سے متعلق قوانین کے ضابطوں میں اس لیے رعایت دی گئی تھی کہ ان کے پاسپورٹوں کی مدت ختم ہو چکی تھی۔
بھارت میں پناہ لینے والے ایسے غیر ملکی یا تو طویل مدت کے ویزا (ایل ٹی وی) یا زیارتی ویزا پر آتے ہیں۔ ایل ٹی وی کے تحت ویزے پانچ سال کے لیے جاری کیے جاتے ہیں اور ان کو بھارتی شہریت کے حصول میں کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔ نومبر 2021ء سے لے کر اس سال سات فروری تک پاکستانی ہندوؤں کو 600 ایل ٹی وی ویزے جاری کیے گئے تھے۔ زیارتی ویزوں پر آنے والے بہت سے غیر ملکی اپنے پاسپورٹوں کی مد ت ختم ہو جانے کے بعد اکثر بھارت ہی میں رہ جاتے ہیں۔