18

خدا گواہ: امیتابھ بچن کی فلم جس کیلئے افغان ’مجاہدین‘ نے جنگ روک دی تھی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) یہ 90 کی دہائی کی بات ہے۔ افغانستان میں سویت افواج کی ’مجاہدین‘ سے لڑائی جاری تھی۔

ایسے میں افغانستان کے اُس وقت کے افغان صدر نجیب اللہ کی بیٹی نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ ’مجاہدین‘ سے ایک دن کے لیے جنگ بندی کر دیں۔

وہ چاہتی تھیں کہ جب انڈین فلموں کا ایک بڑا سٹار انڈیا سے افغانستان آئے تو ایسے میں لڑائی بند ہو جائے تاکہ وہ سٹار کابل میں آزادی سے گھوم پھر سکے اور لوگ اسے دیکھ بھی سکیں۔

اس سٹار کا نام امیتابھ بچن تھا اور وہ فلم ’خدا گواہ‘ کی شوٹنگ کے لیے افغانستان آئے تھے۔

یہ واقعہ مجھے افغانستان کے سابق سفیر نے چند سال پہلے اس وقت سنایا جب میں لداخ میں اُن سے ملا۔ 8 مئی 1992 کو ریلیز ہونے والی ہندی فلم ’خدا گواہ‘ کی شوٹنگ کابل اور مزار شریف میں کی گئی تھی۔

افغانستان میں ’سب سے مشہور‘ انڈین فلم

آج سے لگ بھگ 30 سال قبل ریلیز ہونے والی فلم ’خدا گواہ‘ کے بارے میں بات کریں تو یہ مشہور انڈین فلموں میں سے ایک ہے اور اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔

فلمساز منوج دیسائی نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی جاری تھی۔ ’خدا گواہ فلم کے عملے کی حفاظت کے لیے پانچ ٹینکوں کا قافلہ آگے اور پانچ ٹینکوں کا قافلہ پیچھے ہوتا تھا۔ لیکن افغانستان میں امیتابھ بچن کی مقبولیت ایسی تھی کہ حفاظتی انتظامات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔‘

’ایک بار شوٹنگ کے دوران ہمیں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر برہان الدین ربانی کا پیغام ملا کہ وہ امیتابھ بچن کے بہت بڑے مداح ہیں اور فلم یونٹ کو باغی گروپوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ پھول دینے بھی آئے تھے۔‘

یعنی خانہ جنگی سے متاثرہ ملک میں بظاہر حکومت، مجاہدین اور باغی سب ایک انڈین ستارے کے لیے متحد ہو گئے تھے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب امیتابھ بچن اور انڈین وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان گہری دوستی تھی۔

منوج دیسائی نے بتایا کہ راجیو گاندھی کی وجہ سے افغانستان کی نجیب اللہ حکومت نے عملے کا بہت خیال رکھا۔ راجیو گاندھی کو سال 1991 میں قتل کر دیا گیا تھا اور یہ فلم 1992 میں ریلیز ہوئی تھی۔

مصنف رشید قدوائی نے اپنی کتاب ’نیتا ایکٹر، بالی وڈ سٹار پاور اِن انڈین پولیٹکس‘ میں لکھا ہے کہ ’دلی میں خدا گواہ کی ایک لانچ پارٹی تھی، وہاں امیتابھ بچن اپنے دوست راجیو گاندھی کو یاد کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ راجیو گاندھی نے کس طرح اس فلم کی شوٹنگ افغانستان میں کروانے میں مدد کی۔ انھوں نے ذاتی طور پر وہاں کے صدر نجیب اللہ سے حفاظتی انتظامات کی ضمانت مانگی تھیں۔‘

امیتابھ بچن کے لیے ایک خاندان نے اپنا گھر خالی کر دیا

افغانستان میں اپنے دنوں کو یاد کرتے ہوئے خود امیتابھ بچن نے بھی لکھا ہے کہ ’صدر نجیب اللہ انڈین فلموں کے بہت بڑے مداح تھے۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے اور ہمیں وہاں شاہی انداز میں رکھا گیا۔‘

’ہمیں ہوٹلوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک خاندان نے ہمارے لیے اپنا گھر خالی کر دیا اور خود ایک چھوٹے گھر میں رہنے کے لیے چلے گئے۔ ہماری فلم یونٹ کو ایک قبیلے کے رہنما نے مدعو کیا تھا۔ میں ڈینی کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں گیا جس کے آگے اور پیچھے پانچ ہیلی کاپٹر تھے۔ اوپر سے پہاڑوں کا نظارہ حیرت انگیز تھا۔‘

’جب ہم وہاں پہنچے تو قبیلے کے رہنما نے ہمیں گلے لگایا اور اندر لے گئے کیونکہ روایت یہ تھی کہ مہمان کے پاؤں زمین پر نہیں پڑنے چاہییں۔ کابل میں ہمیں بہت سے تحائف ملے۔۔۔ اس رات افغان صدر کے چچا نے ہمارے لیے ایک راگ گایا۔‘

میرے افغان دوست بتاتے ہیں کہ جب امیتابھ بچن نے خدا گواہ میں یہ ڈائیلاگ اپنے انداز اور آواز میں کہا تو تالیوں کی گونج اٹھی۔ ’سرزمین ہندوستانِ، سلام و علیکم۔ میرا نام بادشاہ خان ہے۔ عشق میرا مذہب، محبت میرا ایمان ہے۔ اسی محبت کے لیے کابل کا یہ پٹھان سرزمین ہندوستان سے محبت کی خیر مانگنے آیا ہے۔‘

ان تیس برسوں میں افغانستان کہاں پہنچ گیا؟

اب خدا گواہ کی ریلیز کے 30 سال بعد کی بات کریں تو افغانستان نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ اتنے برسوں بعد وہ پھر اسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں برسوں پہلے تھا۔ طالبان نے اداکاراؤں کے ٹی وی سیریلز میں آنے پر پابندی لگا دی ہے۔

جہاں تک انڈین فلموں اور سیریلز کا تعلق ہے تو وہ افغانستان میں ہمیشہ سے مشہور رہے ہیں۔ انڈین فلم انڈسٹری افغانستان کی بدلتی ہوئی حکومتوں اور حالات کی گواہ رہی ہے، چاہے وہ خدا گواہ ہو یا کوئی اور فلم۔

خدا گواہ سے پہلے 1975 میں فیروز خان نے ڈینی اور ہیما مالنی کے ساتھ اپنی فلم دھرماتما کی شوٹنگ افغانستان میں کی تھی۔

اس سے قبل ایک انٹرویو میں فیروز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں فلم کی شوٹنگ کی لوکیشن دیکھنے افغانستان گیا تھا۔ اس وقت ظہیر شاہ بادشاہ تھے۔ انھوں نے اجازت دے دی تھی۔ جب ہم شوٹنگ کے لیے وہاں پہنچے تو ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لیکن افغانستان کی نئی حکومت نے بھی ہمیں بہت عزت دی اور ہمیں کوئی پریشانی کا سامنا نہیں ہونے دیا۔‘

فیروز خان دھرماتما کی شوٹنگ کے لیے قندوز گئے اور بامیان بدھا کے مقام کو بھی فلمبند کیا گیا۔ ’کیا خوب لگتی ہو، بڑی سندر دکھتی ہو۔۔۔‘ اس گانے میں افغانستان کے خوبصورت نظارے قید کیے گئے۔ بعد میں اس مقام کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔

افغانستان میں شیر خان کا کردار بھی کم مشہور نہیں
سوشل میڈیا پر وائرل ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے فیروز خان اور ہیما مالنی کا افغانستان میں استقبال کیا جا رہا ہے۔

فلم زنجیر کا کردار جو پران نے ادا کیا تھا، افغانستان میں بہت مشہور تھا۔ اس سے قبل 1965 میں فلم ’کابلی والا‘ نے انڈیا اور کابل کے دل کو جوڑنے کا کام کیا تھا۔

90 کی دہائی میں طالبان کی آمد کے بعد ایک دور ایسا آیا جب فلموں اور فوٹو گرافی پر پابندی لگا دی گئی۔

برسوں بعد ہدایتکار کبیر خان نے فلم ’کابل ایکسپریس‘ کی شوٹنگ افغانستان میں کی اور اسے 2006 میں ریلیز کیا۔ کابلی والا اور کابل ایکسپریس کے درمیان افغانستان میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔

جب کبیر خان فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے تو طالبان اقتدار سے چلے گئے لیکن طالبان کی دہشت اب بھی موجود تھی۔

جب حالات آہستہ آہستہ بہتر ہوئے تو افغان فلمیں دوبارہ بننے لگیں۔ پہلی بار خواتین نے فلم ڈائریکشن کا کام شروع کیا۔ تاہم اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔

صبا سحر افغانستان کی پہلی خاتون ہدایتکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک اداکارہ ہیں اور پولیس افسر رہ چکی ہیں۔ سال 2020 میں ان پر طالبان نے حملہ کیا اور انھیں چار گولیاں ماری گئیں۔ اس دن وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کام پر گئی تھیں۔ انھیں یقین تھا کہ ایسی حالت میں ان پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ اور وہ کسی طرح اس حملے سے بچ گئیں۔

گذشتہ سال 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد فلم انڈسٹری اور فنکاروں پر ایک بار پھر گرہن لگ گیا ہے۔ سنہ 2003 میں فلم بنانے والی رویا سادات کا شمار بھی افغانستان کی پہلی خاتون فلم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے۔

وہ افغان خواتین پر فلم بنا رہی تھیں جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کار کے طور پر کام کرتی تھیں۔ لیکن 2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد انھیں فلم بند کرنا پڑی۔ وہ اپنے ملک واپس نہیں جا سکتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم جنگ سے تھک چکے ہیں۔ لیکن ہم فنکار بھی لڑ رہے ہیں۔ ہم اپنے فن سے، کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ سے لڑ رہے ہیں۔‘

گذشتہ سال فلم ڈائریکٹر ساحرہ کریمی کی مدد کی درخواست کرنے والی ایک پوسٹ وائرل ہوئی تھی۔ وہ افغان فلم ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون چیئرپرسن ہیں، یا تھیں۔۔۔ یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ افغان فلم ایسوسی ایشن اس وقت موجود نہیں۔

اب سوچ کر افغانستان میں شوٹ ہونے والی ابتدائی انڈین فلمیں دھرماتما یا خدا گواہ ایک خواب لگتی ہیں۔

میں جب بھی دھرماتما میں ہیما مالنی اور فیروز خان پر فلمایا گیا گانا ’کیا خوب لگتی ہو، بڑی سندر لگتی ہو‘ دیکھتا ہوں، افغانستان کے خوبصورت نظاروں کو دیکھتے ہوئے آنکھیں جھپک نہیں پاتا۔

خدا گواہ کے مناظر بھی کیا خوب فلمائے گئے ہیں۔

عجیب اتفاق تھا کہ فلم میں جہاں حبیب اللہ کے کردار کی شوٹنگ ہوئی تھی، افغان صدر نجیب اللہ کو چار سال بعد پھانسی دے دی گئی۔

شعلے میں امیتابھ بچن کے ساتھ کام کرنے والے انڈین اداکار اے کے ہنگل بھی نجیب اللہ کے اچھے دوست تھے اور انھیں خطوط لکھتے رہتے تھے۔

افغان صدر نے اپنی آخری ملاقات میں اے کے ہنگل صاحب کو ایک خوبصورت افغان قالین اور زردہ تحفے میں دیا تھا۔

فلم خدا گواہ کو تیس برس بیت گئے، امیتابھ بچن کو پسند کرنے والے آج بھی افغانستان میں موجود ہیں۔

وراثت کی طرح یہ فلم بھی افغان گھروں میں نسل در نسل یادوں کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن آج یہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے اور افغانستان میں زندگی نئی جدوجہد کا نام بن گئی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں